سامنے پیش کیا اور وہ سب شہزادہ عبدالرحمن کو اندلس بلانے اور اس کی مدد کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے بدر کو جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے اپنے گیارہ آدمیوں کے ہمراہ ایک کرایہ کا جہاز لے کر سبطہ کی جانب روانہ کیا کہ شہزادہ عبدالرحمن کو ہماری طرف سے اطمینان دلاؤ اور جس قدر جلد ممکن ہوسکے یہاں لے آؤ، یہ بھی ایک خوش قسمتی کی بات تھی کہ یہ لوگ جو بنو امیہ کے ہمدرد ہو سکتے تھے زیادہ تر اندلس کے جنوبی و مشرقی ساحل کے قریب آباد تھے اس لیے عبدالرحمن کو اندلس پہنچنے میں اور بھی آسانی ہوئی، اندلس سے آنے والا یہ جہاز جس میں بدر مع اندلس کے آدمیوں کے آ رہا تھا جب ساحل سبطہ کے قریب پہنچا ہے تو اس وقت عبدالرحمن نماز پڑھ رہا تھا، یہ لوگ جہاز سے اتر کر بدر کی رہبری میں عبدالرحمن کے سامنے گئے، سب سے پہلے اندلس کے گیارہ آدمیوں کے امیر وفد ابوغالب التمام نے آگے بڑھ کر عبدالرحمن کو سلام کیا اور کہا کہ اہل اندلس آپ کے منتظر ہیں ، عبدالرحمن نے اس کا نام دریافت کیا، جب نام سنا تو عبدالرحمن خوش ہو گیا اور جوش مسرت میں بے اختیار کہہ اٹھا کہ ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور غالب ہوں گے، اس کے بعد عبدالرحمن نے مطلق تامل نہیں کیا، فوراً جہاز میں سوار ہو گیا اپنے چند جاں نثاروں کو جو سبطہ میں موجود اور اس سے محبت و ہمدردی کا تعلق رکھتے تھے ہمراہ لیا اور اندلس کے ساحل پر جا اترا، وہاں پہلے سے ہزار ہا لوگ استقبال کے لیے موجود تھے جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے۔
قرطبہ پر عبدالرحمن کا قبضہ:
عبدالرحمن کے اندلس میں پہنچتے ہی ہوا خواہان بنی امیہ اور اہل شام سن سن کر دوڑے اور عبدالرحمن کی اطاعت و فرماں برداری کے حلف اٹھائے، اس کے بعد ارد گرد کے شہروں اور قصبوں پر قبضہ شروع ہوا موسم برسات کے آ جانے کے سبب یوسف جلد قرطبہ کی طرف نہ آ سکا، اس لیے عبدالرحمن کو یوسف کی فیصلہ کن جنگ کے لیے سات مہینے کی مہلت مل گئی، آخر عیدالاضحیٰ کے روز لڑائی ہوئی اور دار السلطنت قرطبہ پر عبدالرحمن کا قبضہ ہوا۔
جب اس لڑائی میں فتح حاصل ہوئی تو یمنی لوگوں کے ایک سردار ابوالصباح نامی نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ یوسف سے ہم بدلہ لے چکے ہیں ، اب موقع ہے کہ اس آدمی نوجوان یعنی عبدالرحمن کو قتل کر دو اور بجائے اس کے کہ یہاں امویوں کی حکومت قائم ہو اپنی قوم کی حکومت قائم کرو، مگر چوں کہ عبدالرحمن کے لشکر میں شامیوں اور بربریوں کی تعداد کافی تھی اس لیے علانیہ یمنی لوگ کوئی مخالفت یا بغاوت نہ کر سکے اور خاموش ہو کر خفیہ طور پر عبدالرحمن کی ذات پر حملہ کرنے کی تدبیر سوچنے لگے، اتفاق سے عبدالرحمن کو بھی ان لوگوں کے ارادے کا حال معلوم ہو گیا اس نے صرف یہ کیا کہ اپنا ایک باڈی گارڈ
|