وطن چین و منگولیا تھا اور تاتاریوں کا وطن ترکسان تھا۔ بعد میں تاتاریوں کو ترک کہنے لگے اور لفظ ترک کی عمومیت محدود ہو کر تاتار کی مترادف رہ گئی۔ اس طرح تاتار کا لفظ عرف عام سے غائب ہو گیا اور ترک و مغل دونوں قوموں کے نام مشہور ہوئے۔ اب بعض مورخین نے اصلیت کی بنا پر مغلوں کو بھی ترک کے نام سے یاد کیا کیونکہ وہ ترک بن یافث کی اولاد سے ہیں ۔ بعض نے سلجوقیوں کو بھی ترک کہا اور بعض نے سلاطین عثمانیہ کو بھی اسی وجہ سے مغلوں کا ہم قوم قرار دیا۔ غرض اوپر کے بیان کو اگر بغور پڑھ لیا جائے تو تاریخ کے مطالعہ کرنے والے کی بہت سی دقتیں حل ہو سکتی ہیں ۔ اب ہم کو فتنۂ مغولان چنگیزی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے لیکن اس سے پہلے یہ بات اور ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تاتاریوں کی قوم جو مغلوں سے زبردست ہونے کی وجہ سے مغلوں کو اپنے علاقے سے باہر قدم رکھنے کا موقع نہیں دیتی تھی ترکستان سے نکل کر خراسان، ایران، عراق، شام، ایشیائے کوچک تک پھیل گئی تھی اور اس قوم کے بہادر اولو العزم افرا دو قبائل ممالک اسلامیہ میں بڑے بڑے مناصب اور عہدوں پر فائز ہو کر اپنے قدیمی وطن ترکستان کا خیال چھوڑ چکے تھے۔ ان میں ہر قسم کی تہذیب و شائستگی بھی آ گئی تھی اور مغول قوم کا پشتی دشمن ان کے راستے سے الگ ہو چکا تھا۔ لہٰذا وقت آ گیا تھا کہ یہ قوم بھی اپنے انتہائی جہل و بدتمیزی اور سفاکی و بد تہذیبی کے ساتھ اپنے کو ہستانی مامن اور قدیمی وطن کو چھوڑ کر متمدن دنیا میں نکلے اور غافلوں کیے لیے تازیانہ عبرت ثابت ہو۔
چنگیز خان
مغلوں کا حلیہ:
مورخین نے ان مغلوں کی تصویر جو الفاط میں کھینچی ہے۔ اس طرح ہے کہ یہ لوگ ترکوں سے بہت مشابہ ہیں ۔ ان کے چوڑے چکلے سینے، کشادہ چہرے، چھوٹے سرین اور گندمی رنگ ہیں ۔ سریع الحرکت اور تیز ذہین ہیں ۔ جب کسی اہم کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اپنی رائے کو ظاہر نہیں کرتے اور دفعتاً بے خبری کی حالت میں اپنے دشمن پر جا گرتے اور اس کو سنبھلنے کی مہلت نہیں دیتے۔ سیکڑوں حیلے جانتے ہیں اور دشمن کے لیے راہ فرار کو مسدود کر دیتے ہیں ۔ ان کی عورتیں بھی مردوں کے ساتھ مل کر لڑتی ہیں اور شمشیر زنی میں کسی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں ۔ جس چیز کا گوشت ملتا ہے کھا جاتے ہیں کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتے۔ کوئی شخص جاسوس بن کر ان کے ملک میں نہیں جا سکتا، کیونکہ وہ اپنے حلیہ سے فوراً پہچان لیا جاتا ہے۔ قتل کرنے میں وہ مرد، عورت، بچے، بوڑھے سب کو قتل کر دیتے ہیں ۔ گویا قتل عام کا مفہوم انہی کے قتل سے سمجھ میں آتا
|