کی طرف متوجہ ہوا۔ متعدد لڑائیاں ہوئیں ۔ محمد بن حمید خرمیوں کو شکست دیتا اور پیچھے ہٹاتا ہوا دامن کوہ تک چلا گیا۔ خرمی لوگ پہاڑ پر چڑھ گئے۔ محمد بن حمید بھی ان کے تعاقب میں پہاڑ پر چڑھا وہاں خرمیوں نے لوٹ کر مقابلہ کیا تو محمد بن حمید کی فوج کو شکست ہوئی، کمیں گاہوں سے نکل نکل کر خرمیوں نے قتل عام شروع کر دیا۔ اسی معرکہ میں محمد بن حمید مارا گیا اور بابک خرمی کے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند ہو گئے۔ یہ واقعہ ۲۱۲ھ میں وقوع پذیر ہوا۔
اسی سال موسیٰ بن حفص حاکم طبرستان فوت ہوا، اس کی جگہ مامون الرشید نے اس کے بیٹے کو حاکم طبرستان مقرر کیا۔ اسی سال خلیفہ مامون نے حاجب بن صالح کو سندھ کی حکومت پر مامور فرما کر روانہ کیا۔ سندھ کے پہلے حاکم بشر بن داؤد نے سندھ کی حکومت سپرد کرنے سے انکار کیا، دونوں میں معرکہ آرائی کی نوبت پہنچی، آخر بشر بن داؤد شکست کھا کر کرمان کی طرف بھاگ گیا۔
اسی سال یعنی ۲۱۲ھ میں مامون الرشید نے عبداللہ بن طاہر کو مصر سے واپس بلا کر حکم دیا کہ بابک خرمی کے فتنہ کو فرو کرو۔ عبداللہ بن طاہر دینور میں اپنے لشکر کو ترتیب دے کر بابک خرمی کی طرف بڑھنا چاہتا تھا کہ خبر پہنچی کہ نیشاپور میں خوارج نے خروج کیا ہے، کیونکہ طلحہ بن طاہر گورنر خراسان فوت ہو گیا ہے۔ مامون الرشید نے فوراً عبداللہ بن طاہر برادر طلحہ کے پاس خراسان کی سند گورنری بھیج کر حکم دیا کہ تم خرسان پہنچ کر فتنہ خوارج کو فرو کرو۔
عبداللہ بن طاہر مقام دینور سے نیشاپور کی طرف متوجہ ہوا اور بابک خرمی عبداللہ بن طاہر کے حملے سے بچ گیا۔ اس کے بعد بابک خرمی پر خلیفہ کی طرف سے کوئی سپہ سالار حملہ آور نہ ہوا اور مامون الرشید کی وفات کے بعد اس فتنہ کا استیصال ہوا۔ عبداللہ بن طاہر نے خراسان پہنچ کر وہاں کی بغاوت فرو کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
متفرق حالات:
مامون الرشید کے وزیر اعظم احمد بن ابی خالد نے جو نہایت عقل مند، نیک طینت اور پاک طبیعت شخص تھا اسی سال وفات پائی۔ اور اس کی جگہ مامون الرشید نے احمد بن یوسف کو خلعت وزارت عطا کیا۔ احمد بن ابی خالد بنی عامر کا ایک شامی غلام تھا جو اعلیٰ درجہ کا ادیب اور منشی تھا۔
احمد بن یوسف ایک معمولی دفتر میں کاتب تھا، مامون چونکہ اس کی قابلیت سے واقف تھا، لہٰذا اس کو یک لخت وزارت عظمیٰ کا عہدہ عطا کر دیا۔
۲۱۲ھ میں احمد بن محمد عمری معروف بہ ابوالرازی کو یمن پر مامور فرمایا۔ ۲۱۳ھ میں مامون الرشید
|