اہل خاندان کی مخالفت:
اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ سلطان حکم کا چچا عبداللہ اندلس سے مراکش کے شہر تنجیر میں جا کر سکونت پذیر ہو گیا تھا عبداللہ اس وقت بہت بوڑھا اور ضعیف ہو چکا تھا مگر اپنے بھتیجے سلطان حکم کی وفات کا حال سن کر وہ تنجیر سے چلا اور اندلس میں وارد ہو کر اپنی حکومت کا اعلان کیا۔ عبداللہ کے تین بیٹے اس وقت اندلس میں موجود اورصوبوں کی گورنری پر مامور تھے۔ عبداللہ کو توقع تھی کہ میرے بیٹے ضرور میری بادشاہت کے قائم کرانے میں مددگار ہوں گے، مگر یہ عبداللہ کی حماقت تھی اور کہا جا سکتا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی عقل کمزور ہو گئی تھی۔ شاہی فوجوں نے فوراً عبداللہ کا مقابلہ کیا اور وہ شکست کھا کر کوہستان بلنسیہ میں پناہ گزیں ہوا، اس کے بیٹے بجائے اس کے کہ باپ کی مدد کرتے اور اس بغاوت میں اس کے شریک ہوتے انہوں نے عقل و دانائی اور مآل اندیشی سے کام لے کر عبدالرحمن ثانی کی حمایت کی اور باپ کو سمجھایا کہ اس خیال خام سے بازر ہو اور آتش فساد کو مشتعل نہ کرو۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ عبداللہ نے اپنے پوتے عبدالرحمن ثانی سے عفو تقصیرات کی درخواست کی اور عبدالرحمن نے اس درخواست کو منظور ہی نہیں کیا بلکہ عبداللہ کو صوبہ برسیہ کا والی بنا دیا۔ جہاں وہ دو تین سال یعنی مرتے دم تک برسر حکومت رہا۔
علی بن نافع ماہر موسیقی کی قدر افزائی:
تخت نشینی کے پہلے ہی سال یعنی ۲۰۶ھ میں ابراہیم موصلی کا شاگرد علی بن نافع معروف بہ فاریاب وارد اندلس ہوا۔ علی بن نافع موسیقی میں استاد کامل تھا۔ نیز علوم مروجہ اور بعض دوسرے علوم غریبہ میں ماہر یکتا تھا۔ سلطان حکم نے یہ سن کر کہ ملک عراق و شام میں اس کی اس کے مرتبہ کے موافق قدردانی نہیں ہوئی۔ اس کو اندلس میں اپنے پاس طلب کیا تھا، مگر اس کے نیچے سے پہلے ہی سلطان حکم فوت ہو چکا تھا۔ جب سلطان عبدالرحمن کو اس حکیم و فلسفی کے وارد اندلس ہونے کا حال معلوم ہوا تو اس نے شہروں کے عاملوں کے نام احکام جاری کر دیے کہ قرطبہ تک پہنچنے میں علی بن نافع کو جس جس شہر میں ہو کر گزرنا پڑے اس شہر کا حاکم اس کا شاہانہ استقبال کرنے اور متعدد غلام اور گھوڑے اور ہدیے پیش کر لے غرض بڑی عزت و احترام سے یہ شخص قرطبہ تک پہنچا اور بادشاہ کا مقرب خاص اور ندیم با اختصاص بن گیا۔
علی بن نافع کی اہم معاشرتی اصلاحیں :
اس نے اندلس میں بڑی بڑی اہم معاشرتی اصلاحیں کیں اور تکلفات و زینت کے عجیب عجیب طریقے ایجاد کیے جو بہت جلد مقبول عوام ہوئے۔ اس کی کوششوں سے قرطبہ کے اندر آب رسانی کے نل لگائے گئے اور پھر بہت جلد اندلس کے دوسرے شہروں میں بھی نلوں کا سلسلہ جاری ہو انئے نئے پر تکلف
|