Maktaba Wahhabi

638 - 868
میں تھا۔ اس نے تتش کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میرا مصری فوجوں نے محاصرہ کر رکھا ہے اگر آپ میری مدد نہ کریں گے تو میں مجبوراً دمشق ان کے حوالے کر دوں گا۔ تتش نے فوراً دمشق کی جانب کوچ کر دیا۔ تتش کے آنے کی خبر سن کر مصری لشکر دمشق سے محاصرہ اٹھا کر مصر کی طرف بھاگ گیا۔ تتش نے دمشق پہنچ کر اتسزا کو قتل کیا اور خود دمشق پر قابض و متصرف ہو گیا۔ یہ واقعہ ۴۷۱ھ میں وقوع پذیر ہوا اس کے بعد حلب پر بھی تتش کا قبضہ ہو گیا اور رفتہ رفتہ تمام ملک شام اس کے قبضے میں آ گیا۔ یہ حالات سن کر بدر جمالی نے مصر میں فوجیں جمع کیں اور ایک لشکر جرار لے کر دمشق پر حملہ آور ہوا۔ مگر تتش کے مقابلے میں ناکام رہ کر واپس ہوا۔ اس کے بعد بھی کئی مرتبہ مصری فوجوں نے شام پر حملہ کیا مگر ناکام واپس گئیں ۔ ۴۸۴ھ میں جزیرہ صقلیہ کو عیسائیوں نے مسلمانوں کے قبضے سے نکال لیا۔ ماہ ربیع الاول ۴۸۷ھ میں بدر جمالی نے اسی سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس کے بعد ۸ ذی الحجہ ۴۸۷ھ کو مستنصر عبیدی بھی فوت ہو گیا۔ مستنصر کا ابتدائی زمانہ بہت خطرناک تھا۔ اس کی سلطنت کے مٹنے اور دولت عبیدیین کے فنا ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی کہ بدر جمالی نے اس سلطنت کو برباد ہونے سے بچا لیا۔ مستنصر کے تین بیٹے احمد، نزار اور ابوالقاسم تھے۔ مستنصر نے نزار کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ حسن بن صباح کی مستنصر سے بیعت : کہتے ہیں کہ مستنصر کے عہد حکومت میں حسن بن صباح عراق سے سودا گروں کے لباس میں وارد مصر ہوا اور مستنصر کی خدمت میں حاضر ہو کر مستنصر سے بیعت ہوا اور عرض کیا کہ میں آپ کے بعد کس کو امام مانوں ۔ مستنصر نے کہا کہ میرے بعد میرا بیٹا نزار تمہارا امام ہو گا۔ اس کے بعد حسن بن صباح نے مستنصر سے اجازت حاصل کی کہ ملک عراق میں آپ کی خلافت و امامت کی تبلیغ کروں ۔ مستنصر نے اس کو اجازت دے دی اور اپنا داعی بنا کر روانہ کیا۔ حسن بن صباح نے عراق میں آکر دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا اور رفتہ رفتہ قلعہ الموت پر قابض ہو گیا۔ حسن بن صباح اور اس کی قائم کی ہوئی سلطنت کا حال آگے اپنے موقع پر بیان ہو گا۔ مستنصر نے بدر جمالی کی وفات کے بعد اس کے بیٹے محمد ملک کو وزارت کا عہدہ عطا کیا تھا۔ محمد ملک اور نزار کے درمیان ناراضی تھی۔ اس لیے مستنصر کی وفات کے بعد محمد ملک نے مستنصر کی بہن کو اس بات پر رضا مند کر لیا کہ تخت سلطنت پر ابوالقاسم کو بٹھایا جائے۔ چنانچہ مستنصر کی بہن نے محمد ملک کی خواہش کے موافق اراکین سلطنت کے سامنے اس بات کی گواہی دی کہ مستنصر نے اپنے بعد ابوالقاسم کے تخت نشین ہونے کی وصیت کی ہے۔ چنانچہ لوگوں نے ابوالقاسم کے ہاتھ پر حکومت کی بیعت کی اور ’’مستعلی باللہ‘‘ کے لقب سے اس کو تخت پر بٹھایا۔
Flag Counter