Maktaba Wahhabi

637 - 868
میں زیادہ تھی۔ اتفاق سے ایک غلام ناصرالدولہ بن حمدان سودانی ترقی کر کے امراء و اراکین دولت کی حمایت سے سپہ سالاری کے درجہ پر پہنچ گیا اور ترکوں کا لیڈر اور سردار بن گیا۔ سلطنت کے اعضا کٹ کٹ کر خود مختار ہو چکے تھے اور اراکین سلطنت اور مستنصر کی والدہ اور مستنصر سب قاہرہ کے اندر ایک دوسرے کی طاقت کو گھٹانے اور زیر کرنے میں مصروف تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ترکوں اور غلاموں میں خانہ جنگی نمودار ہوئی اور مستنصر عبیدی کی فوج کے دو حصے ہو کر آپس میں لڑنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ترکوں کے ہاتھ سے ہزار ہا غلام مارے گئے اور ناصرالدولہ ترکوں کا سردار سب پر غالب ہو گیا اور اس نے مستنصر کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے حسب منشاء امور سلطنت طے کرنے شروع کیے۔ مستنصر نے اپنی حالت سقیم کو تبدیل کرنے کے لیے اپنے غلام بدر جمالی ارمنی الاصل کو جو عکہ میں برسر حکومت تھا۔ اشارہ کیا۔ بدر جمالی نے عکہ میں ارمنی لوگوں کی بھرتی جاری کر دی اور ایک زبردست ارمنی فوج لے کر براہ دریا جہازوں میں سوار ہو کر مصر میں داخل ہوا۔ مستنصر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مستنصر نے اس کو قلم دان وزارت عطا کیا اور چند ترکوں کو سمجھایا کہ ناصرالدولہ نے تم کو بلا وجہ جنگ و جدل کی مصیبت میں پھنسایا، ترکوں نے خلیفہ کا یہ اشارہ پا کر اپنی آئندہ بہبود مدنظر رکھ کر ناصرالدولہ کو خود ہی دھوکے سے قتل کر دیا۔ اب بدر جمالی ترکوں کا سردار بن گیا۔ بدر جمالی نے خوب طاقتور ہو کر اور سلطنت کے تمام شعبوں اور صیغوں پر مستولی ہونے کے بعد وفاداری کے ساتھ سلطنت کے اعتماد و وقار کو بڑھایا۔ باغی سرداروں کو اطاعت پر مجبور کیا۔ جو شہر قبضے سے نکل گئے تھے ان کے واپس فتح کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہوا۔ طرابلس کو بھی عربوں سے چھین لیا۔ فلسطین کے تمام علاقے کو بھی حکومت میں شامل کیا۔ دمشق کی حالت یہ تھی کہ وہاں جو شخص قابو پاتا تھا قابض ہو جاتا تھا۔ مگر خطبہ مصر کے بادشاہ عبیدی کا پڑھواتا تھا۔ دربار قاہرہ اسی کو غنیمت جانتا تھا۔ ۴۶۸ھ میں جب کہ بدر جمالی نے مستنصر کی حکومت کے بگڑے ہوئے کام کو بہت کچھ سنبھال دیا تھا۔ دمشق پر امیر اقدس نے حملہ کر کے اپنا قبضہ جمایا اور بجائے بادشاہ مصر کے خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ دمشق میں پڑھا گیا۔ ۴۶۹ھ میں اتسز ابن افق نامی سردار نے جو سلجوقی لشکر کا ایک سپہ سالار تھا دمشق پر حملہ کیا۔ یہ خبر سنتے ہی مصر سے بدر جمالی نے دمشق کی جانب فوج روانہ کی۔ اہل دمشق نے اتسزا کی حکومت قبول کر لی تھی کہ اتنے میں مصری لشکر نے آکر دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ ۴۷۰ھ میں سلطان ملک شاہ سلجوقی نے تتش سلجوقی کو بلاد شام کی حکومت سپرد کر کے یہ حکم دیا کہ تم ملک شام کا جس قدر حصہ فتح کر لو گے وہ تمہارا ملک سمجھا جائے گا۔ چنانچہ تتش نے حدود شام میں داخل ہو کر حلب پر فوج کشی کی اہل حلب نے مدافعت کی اور تتش نے حلب کا محاصرہ کر لیا۔ ادھر دمشق میں اتسزا ابھی تک مصری لشکر کے محاصرے
Flag Counter