عمران نے اسد بن فرات قاضی کو بھی بغاوت پر ابھارا۔ مگر اسد نے بغاوت سے انکار کیا۔ ابراہیم بن اغلب نے اپنی اس حالت کی اطلاع خلیفہ ہارون الرشید کو دے کر روپیہ کی امداد چاہی تھی۔ خلیفہ ہارون الرشید نے ابراہیم کے پاس کافی خزانہ فوراً روانہ کر دیا۔ اس خزانہ کے پہنچنے پر ابراہیم بن اغلب نے داد و دہش کا سلسلہ جاری کیا۔ اور عمران کی فوج کے اکثر آدمی ابراہیم کے پاس چلے آئے۔ عمران پریشان ہو کر اور محاصرہ اٹھا کر مقام زاب کی طرف چلا گیا اور وہیں مقیم رہا۔ ابراہیم بن اغلب نے اس خطرہ سے نجات حاصل کر کے ۱۹۶ھ میں اپنے بیٹے عبداللہ کو طرابلس کی حکومت پر روانہ کیا۔ اس کے پہنچنے پر چند ہی روز کے اندر طرابلس کی فوج نے بغاوت کی اور دارالامارت میں اس کا محاصرہ کر لیا۔ پھر اس شرط پر کہ وہ طرابلس کو چھوڑ کر چلا جائے اس کو امان دی۔ عبداللہ نے طرابلس سے نکل کر اور اسی کے مضافات میں مقیم رہ کر بربریوں کو اپنے گرد جمع کرنا شروع کیا اور ان کو خوب روپیہ لٹایا۔ جب اس طرح ایک جمعیت کثیر فراہم ہو گئی تو طرابلس پر حملہ کیا اور طرابلس کی فوج کو شکست دے کر طرابلس پر قبضہ کیا۔ اس کے چند روز بعد ابراہیم بن اغلب نے عبداللہ کو طرابلس کی حکومت سے معزول کر کے سفیان بن مضار کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔ اہل طرابلس نے پھر بغاوت کی اور سفیان کو طرابلس سے نکال دیا۔ سفیان ابراہیم کے پاس عباسیہ میں پہنچا۔ ابراہیم نے سفیان کے ساتھ اپنے بیٹے عبداللہ کو روانہ کیا اور پھر طرابلس کی طرف بھیجا۔ سخت معرکہ ہوا اور بڑے کشت و خون کے بعد چند روز طرابلس میں امن و امان رہا۔ پھر عبدالوہاب بن عبدالوہاب بن عبدالرحمن بن رستم بربریوں کی ایک جمعیت کثیر لے کر طرابلس پر چڑھ آیا اور کشت و خون کا بازار گرم ہوا۔
وفات:
ادھر ماہ شوال ۱۹۶ھ میں ابراہیم بن اغلب نے عباسیہ میں وفات پائی۔ یہ خبر جب عبداللہ کو طرابلس میں پہنچی تو اس نے عبدالوہاب سے صلح کر لی مضافات طرابلس عبداللہ کو دے کر شہر طرابلس اپنے پاس رکھا اور صلح نامہ مرتب کرنے کے بعد طرابلس سے قیروان کی جانب روانہ ہوا۔
عبداللہ بن ابراہیم:
ابراہیم بن اغلب نے وفات کے وقت اپنے بیٹے عبداللہ کو اپنا ولی عہد مقرر کیا اور اپنے دوسرے بیٹے زیادۃ اللہ کو بھائی کی اطاعت کے لیے وصیت کی۔ چنانچہ زیادۃ اللہ نے باپ کی وفات کے بعد اپنے بھائی عبداللہ کی حکومت کے لیے لوگوں سے بیعت لی۔ عبداللہ بن ابراہیم بن اغلب ماہ صفر ۱۹۷ھ میں وارد قیروان ہوا اور زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ قریباً پانچ سال حکومت کر کے ماہ ذی الحجہ ۲۰۱ھ میں عبداللہ نے کان کے زخم کی وجہ سے وفات پائی۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بھائی زیادۃ اللہ تخت نشین ہوا۔
|