نہ بچا سکا، تو اب مثل عورتوں کے ایک گم شدہ چیز پر رونے سے کیا فائدہ۔‘‘؟
اندلس کے مسلمانوں پر عیسائیوں کے مظالم:
عیسائیوں نے الحمراء پر قابض ہو کر معاہدے کی تمام شرائط کو فوراً فراموش کر دیا۔ شہر غرناطہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلطان ابو عبداللہ کو البشرات میں بھی نہیں رہنے دیا بلکہ انہوں نے۔ تھوڑے سے روپے دے کر البشرات کو بھی ابو عبداللہ سے خرید لیا اور وہاں سے ابو عبداللہ مراکش میں جا کر شاہ مراکش کا نوکر ہو گیا۔ وہاں ایک عرصہ دراز تک اس حالت میں رہ کر فوت ہوا۔ عیسائیوں نے تمام ملک میں فوراً اپنی مذہبی عدالتیں قائم کر دیں ۔ جن میں ہر روز ہزارہا مسلمان گرفتار کر کے لائے جاتے اور محض اس جرم میں کہ ان کا مذہب اسلام ہے بعض جھوٹے الزام لگا کر آگ میں جلا دیئے جاتے تھے۔ تاہم مسلمان اپنے مذہب پر قائم اور جزیرہ نمائے اندلس میں موجود پائے جاتے تھے۔
۹۰۴ھ میں ایک عام حکم جاری کیا گیا کہ ہر ایک شخص جو مسلمان ہے وہ دین عیسوی قبول کر لے ورنہ اس کو جہاں کہیں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا۔ مسلمانوں نے اس حالت میں شہروں اور میدانوں کو چھوڑ کو پہاڑوں میں پناہ لی اور ہر قسم کی اذیت برداشت کی، مگر دین اسلام کو چھوڑنا پسند نہ کیا۔ بعض مسلمانوں کو عیسائیوں نے پکڑ کر زبردستی بپتسمہ دیا اور ان کے بچوں کو عیسائی بنایا۔ یہ وہ لوگ تھے جو عربی النسل یا بربری نہ تھے۔ بلکہ ان کے باپ دادا اسی ملک کے قدیم باشندے تھے۔ اور اپنا عیسوی مذہب چھوڑ کر بخوشی مسلمان ہو گئے تھے۔ ان نو مسلم خاندانوں میں سے بھی کسی نے دین اسلام کا چھوڑنا گوارانہ کیا اور وہ چھپ چھپ کر اپنے گھروں میں نمازیں پڑھتے تھے۔ بعض مسلمانوں پر عیسائیوں نے بظاہر یہ سب سے بڑی مہربانی کی کہ ان کو افریقہ چلے جانے کی اجازت دی۔ ان لوگوں کے لیے جہاز بھی فراہم کر دیئے۔ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جو سب سے زیادہ قیمتی سامان جہازوں میں لادا تھا۔ وہ نایاب اور قیمتی کتابوں کے ذخائر تھے، مگر عیسائیوں نے ان جہازوں کو ساحل افریقہ تک پہنچنے سے پہلے سمندر کے اندر غرق کر دیا۔ اس طرح نہ صرف ذی علم مسلمانوں بلکہ نایاب کتب خانوں کو بھی سمندر کی تہ میں پہنچا کر اپنی شرافت و تہذیب اور علم پروری کا نہایت عجیب و غریب ثبوت بہم پہنچایا۔ مسلمانوں کو جس طرح اندلس میں چن چن کر قتل و برباد کیا گیا اس کی مثال دنیا کے کسی ملک اور قوم میں دستیاب نہیں ہو سکتی۔
خلاصہ کلام یہ کہ چند سال کے عرصہ میں قسم کھانے کو بھی کوئی اللہ وحدہ لاشریک کا نام لینے والا سر زمین اندلس میں باقی نہ رہا۔ عیسائیوں نے سب ہی کو یا تلوار کے گھاٹ اتارا یا سمندر میں ڈبویا یا آگ میں جلا دیا۔ آج کل کے مسلمان اگر چاہیں تو اندلس کی یہ جگر خراش اور زہرہ گداز داستان پڑھ کر آپس کی
|