موجود ہے اس پر عیسائیوں کا قبضہ کرا دیا جائے گا۔
۱۴۔ آج سے ساٹھ روز کے اندر اس معاہدہ کی شرائط کی تکمیل پورے طور پر کر دی جائے گی۔
۱۵ ۔شہر غرناطہ ایک سال تک آزاد چھوڑ دیا جائے گا۔ سال بھر کے بعد عیسائی شرائط بالا کی پابندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر قبضہ کریں گے۔
اس عہد نامہ پر یکم ربیع الاول ۸۹۷ھ مطابق ۳ جنوری ۱۴۹۲ء کو دستخط ہوئے تھے اس کی خبر اہل شہر اور فوج سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ عام طور پر بد دلی پھیل گئی اور آوازیں بلند ہونے لگیں کہ سلطان ابو عبداللہ نے مفت سلطنت کو ضائع کر دیا۔ سلطان بہت پریشان ہوا اور اس خیال سے کہ شہر والوں کی بغاوت کہیں بنا بنایا کام نہ بگاڑ دے۔ ساٹھ روز پورے ہونے سے پہلے ہی یعنی ۱۲ ربیع الاول ۸۹۷ھ کو قصر الحمراء عیسائیوں کے سپرد کر دیا۔ فرڈی نند نے اندلس کے سب سے بڑے پادری منذورہ کو حکم دیا کہ وہ مع فوج پہلے شہر میں داخل ہو اور قلعہ حمراء کے سب سے بلند برج پر سے اسلامی نشان کو گرا کر صلیب نصب کر دے تاکہ اس نیک شگون کو دیکھتے ہی بادشاہ مع اپنی ملکہ ازبیلا کے شہر میں داخل ہو۔ جب سلطان ابو عبداللہ نے منذورہ کو قلعہ میں آتے دیکھا تو مع پچاس امیروں کے گھوڑے پر سورا ہو کر قلعہ سے باہر نکل آیا۔ اس وقت کی کیفیت کا تصور ہر شخص کر سکتا ہے کہ شہر پر کیسی اداسی چھائی ہوئی ہو گی۔ مسلمانوں کے دلوں پر کیا گذر رہی ہو گی عیسائیوں کی خوشی کا حال بھی تحریر میں نہیں آ سکتا۔ عیسائی بادشاہ اور اس کی ملکہ فوجی لباس میں اپنے لشکر کے ساتھ صلیب کے بلند ہونے کا انتظام کر رہے تھے۔ سب کی نگاہیں قصر حمراء کے سب سے بلند برج کی طرف لگی ہوئی تھیں کہ سامنے سے ابو عبداللہ نے شاہ قسطلہ کے قریب آکر کنجیاں حوالے کیں اور کہا کہ’’اے طاقتور بادشاہ ہم اب تیری رعایا ہیں ۔ یہ شہر اور تمام ملک ہم تیرے سپرد کرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ کی یہی مرضی تھی ہم کو یقین ہے کہ تو رعایا کے ساتھ ہمیشہ شریفانہ اور فیاضانہ برتاؤ روا رکھے گا۔‘‘
فرڈی نند چاہتا تھا کہ کچھ تشفی آمیز الفاظ کہے لیکن ابو عبداللہ بلا توقف آگے بڑھ گیا اور ملکہ ازبیلا سے ملتا ہوا البشرات کی طرف جہاں اس کا اسباب اور رشتہ دار پہلے ہی جا چکے تھے روانہ ہو گیا۔ اتنے میں چاندی کی صلیب قصر حمراء کے برج پر بلند ہو کر آفتاب کی شعاعوں میں چمکنے لگی اور عیسائی بادشاہ فاتحانہ قصر حمراء میں داخل ہوا۔ ( انا للّٰہ وانا الیہ راجعون )
جب ابو عبداللہ البشرات کے پہاڑ کی ایک چوٹی پر پہنچا تو بے ساختہ اس نے مڑ کر غرناطہ کی طرف دیکھا اور اپنے خاندان کی گذشتہ شان و عظمت پر آخری نظر ڈال کر بے ساختہ زار و قطار رونے لگا۔ ابو عبداللہ کی ماں نے جو اس وقت ہمراہ تھی کہا کہ’’جب تو باوجودایک مرد سپاہی پیشہ ہونے کے اپنے ملک کو
|