لگا، مغیث الرومی خلیفہ کے پاس سے موسیٰ کے نام جو حکم لے کر آیا اس نے موسیٰ بن نصیر کی اولوالعزمیوں کو افسردگی سے تبدیل کر دیا۔
خلیفہ ولید کا حکم اور موسیٰ بن نصیر کی طلبی :
خلیفہ نے موسیٰ بن نصیر کو فتح یورپ سے روک دیا اور بلا توقف حاضر دربار خلافت ہونے کا حکم دیا، اس حکم کی تعمیل میں امیر موسیٰ بن نصیر طارق و مغیث کو ہمراہ لے کر اور اندلس کی حکومت اپنے بیٹے عبدالعزیز کو سپرد کر کے اندلس سے مع سازوسامان روانہ ہوا، موسیٰ کے ساتھ اندلس کے خزانے، طلائی ظروف و زیورات، یعنی مال غنیمت کا خمس اور بہت سے لونڈی غلام بھی تھے۔ اندلس سے موسیٰ مراکش ہوتا ہوا قیروان پہنچا اور قیروان سے مصر ہوتا ہوا دارالخلافہ دمشق کے قریب پہنچ گیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک مرض الموت میں گرفتار ہو گیا، موسیٰ بن نصیر دو برس ازبس میں رہا اور شروع ماہ جمادی الآخر 96ھ میں ملک شام کی حدود میں داخل ہوا، ولید بن عبدالملک کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک تخت نشین ہونے والا تھا، سلیمان کو جب یہ معلوم ہوا کہ ولید کی اس مرض سے جاں بری دشوار ہے اور موسیٰ بن نصیر قریب پہنچ گیا ہے تو اس نے موسیٰ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم ابھی دارالخلافہ میں داخل ہونے کی عجلت نہ کرو، غالباً سلیمان بن عبدالملک ولی عہد خلافت کا یہ منشا ہو گا کہ اگر خلیفہ ولید فوت ہونے والا ہے تو میری تخت نشینی کے وقت موسیٰ بن نصیر مع مال غنیمت میرے دربار میں حاضر ہو اور اس طرح میری تخت نشینی کی ابتداء شان دار سمجھی جائے، ولی عہد خلافت کی اس خواہش کا پورا کرنا موسیٰ بن نصیر کے لیے بھی کچھ مضر نہ تھا، کیونکہ اگر موسیٰ کے انتظار اور تامل کرنے میں خلیفہ کی بیماری دور ہو جاتی تو حالت صحت و تندرستی میں ولید کی خدمت میں حاضر ہونا زیادہ اچھا تھا اور اگر خلیفہ فوت ہو جاتا تو سیلمان بن عبدالملک، موسیٰ بن نصیر سے خوش ہوتا کہ اس کے منشا کو موسیٰ نے پورا کیا اس طرح نئے خلیفہ سے عنایت و مہربانی کے سوا اور کسی چیز کی توقع نہ تھی، مگر موسیٰ بن نصیر نے ولی عہد خلافت کے پیغام پر مطلق توجہ نہ کی اور دمشق میں جلدازجلد داخل ہو کر اپنے آپ کو خلیفہ ولید بن عبدالملک کی خدمت میں پیش کیا، خلیفہ ولید نے حالت بیماری میں موسیٰ کے تحف و ہدایا اور مال غنیمت سے وہ مسرت حاصل نہ کی جس کی موسیٰ کو توقع تھی، موجودہ خلیفہ کی علالت کو خطرناک دیکھ کر امراء و ورزاء ولی عہد خلافت کی نگاہ میں اپنے آپ کو محبوب بنانے کی عام طور پر کوشش کیا کرتے ہیں ، لہٰذا موسیٰ بن نصیر کی اس حرکت کو موسیٰ کے مخالفوں یا حاسدوں نے اور بھی محل اعتراض بنایا ہو گا اور موسیٰ کی مخالفت میں لوگوں کی زبانیں ضرور تیز ہو گئی ہوں گی اور سلیمان بن عبدالملک کے روبرو موسیٰ بن نصیر کی ایک ایک غلطی بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہو گی اور اس کے طیش و
|