پر ختم بھی نہ کرنے پایا تھا کہ فرانسیسیوں کی فوجوں نے جو سرحد پر عرصہ سے جمع ہورہی تھیں اور ممالک اسلامیہ کی اندرونی بغاوتوں سے فائدہ اٹھانے کی خواہاں تھیں سرحد پر حملہ کیا اور حدود سلطنت اسلامی میں داخل ہو کر شہر سالم کو لوٹ کر برباد کیا۔ عبیداللہ نے اس طرف کے عامل ابن موسیٰ کو ہمراہ لے کر عیسائی فوجوں پر حملہ کیا اور ان کے سپہ سالار لرزیق نامی شاہ فرانس کو شکست دے کر بھگا دیا۔
۲۲۵ھ میں سلطان عبدالرحمن ثانی نے خود بلاد جلیقیہ پر حملہ کر کے وہاں کے عیسائیوں کو سزائیں دے کر مطیع و منقاد بنایا۔ ریاست ایسٹریاس کے حاکم سے باج و خراج وصول کر کے اس سے اطاعت و فرماں برداری کا اقرار لیا اور اسی کی ریاست میں اپنا فوجی کیمپ قائم کر کے ملک فرانس پر خشکی کے راستے بھی اور سمندر کے راستے بھی فوجیں روانہ کیں ۔ ان فوجی مہموں کا نتیجہ مال غنیمت اور کثیرالتعداد قیدیوں کی شکل میں ظاہر ہوا اور سلطان عبدالرحمن سالماً غانماً قرطبہ کی طرف واپس آیا۔
قیصر قسطنطنیہ کی دوسری سفارت:
اسی سال طوفیلس قیصر قسطنطنیہ کی جانب سے قرطبہ میں ایک سفارت اسی طرح وارد ہوئی جیسا کہ اس سے پہلے قیصر میکائیل کی جانب سے سفارت آئی تھی۔ عبدالرحمن نے اس سفیر کے ساتھ بھی وہی برتاؤ کیا جو پہلے سفیر سے کر چکا تھا۔ اس مرتبہ قیصر قسطنطنیہ خلیفہ بغداد سے بہت مجبور ہو گیا تھا اور اس نے پہلے قیصر سے زیادہ الحاح و اصرار کے ساتھ عبدالرحمن سے مدد طلب کی تھی اور پہلے سے زیادہ توقعات دلائی تھیں ۔ ممکن تھا کہ خلیفہ بغداد کی مخالفت کو مدنظر رکھ کر اس نے فرانسیسیوں کے پاس بڑے بڑے قیمتی تحفے اور ہدیے بھیجنے کا سلسلہ جاری کر رکھا ہو اور فرانسیسیوں کو اپنی ہر ایک حملہ آوری پر جو وہ اندلس پر کرتے تھے دربار بغداد سے امداد ملتی ہو، اس مرتبہ عبدالرحمن قیصر قسطنطنیہ کی مدد کو فوج روانہ کر دیتا مگر اتفاق کی بات کہ انہی ایام میں یورپ کے شمالی علاقے کی قوم نارمن نے جو ابھی تک عیسائیت سے متنفر اور آتش پرستی و بت پرستی میں مبتلا تھی جرمن و اسکینڈی نیویا سے اپنی کشتیوں میں سوار ہو کر اور انگلش چینل میں سے گزر کر اندلس کے جنوبی و مغربی ساحل پر اتر کر یکایک قصبوں اور شہروں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ شہر فادیس کو خوب لوٹا اور پھر مضافات اشبیلیہ تک پہنچ گئے۔ یہ حملہ ایک غیر معروف اور اجنبی قوم نے اندلس پر اسی طرح کیا تھا جس طرح مسلمانوں کا ابتدائی حملہ طارق بن زیاد کی سرداری میں ہوا تھا۔ اس وحشت انگیز خبر کو سن کر امیر عبدالرحمن نے خشکی کے راستے ان کے مقابلے کو فوجیں روانہ کیں اور دوسری طرف اندلس کے مشرقی ساحل کی بندرگاہوں میں حکم بھیجا کہ جہازوں کو آبنائے جبل الطارق کی طرف بھیج دو تاکہ ان حملہ آوروں کے جہازوں پر قبضہ کر کے ان کے لیے راہ فرار کو مسدود کر دیں ۔ نارمنوں کو جب یہ
|