Maktaba Wahhabi

88 - 868
عاقلانہ حرکت نہ تھی۔ غالباً محبت پدری نے اس کو ایک ایسی حرکت اور ایسے کام پر آمادہ کر دیا جس کو کسی طرح بھی کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہو سکتا تھا۔ ہارون الرشید کا قابل تذکرہ حج: خلیفہ ہارون الرشید کو حج کرنے کا بہت ہی شوق تھا وہ کسی سخت مجبوری کے بغیر حج کو نہ چھوڑتا۔ اس کا دستور تھا کہ ایک سال کفار پر جہاد کرتا اور ایک سال حج کے لیے جاتا۔ کسی خلیفہ نے اس قدر حج نہیں کیے جس قدر ہارون الرشید نے کیے ہیں ۔ مگر ۱۸۶ھ کا حج اس لیے خصوصیت کے ساتھ قابل تذکرہ ہے کہ اسی حج کے ایام میں خانۂ کعبہ پر وہ عہد نامہ لٹکایا گیا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور اسی حج سے فارغ ہو کر ہارون الرشید نے خاندان برامکہ کی طاقت کو توڑا۔ ہارون الرشید نے انبار سے بقصد حج مکہ معظمہ کی طرف کوچ کیا۔ اس کے ہمراہ اس کے تینوں بیٹے امین و مامون و موتمن تھے۔ جعفر بن یحییٰ بھی جو آج کل وزیراعظم تھا، اس کے ساتھ تھا۔ مکہ معظمہ میں حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ گیا۔ اہل مکہ اور اہل مدینہ کو اپنی داد و دہش اور انعامات سے مالا مال کر دیا۔ اپنی اور اپنے بیٹوں کی طرف سے ایک کروڑ پانچ لاکھ اشرفیاں خیرات میں تقسیم کیں ۔ مدینہ منورہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹا اور مقام انبار میں قیام کیا۔ اسی مقام پر جعفر بن یحییٰ برمکی کو محرم ۱۸۷ھ کی آخری تاریخ میں قتل کرا دیا۔ برامکہ اور ان کا زوال: خلیفہ ہارون الرشید کی خلافت کے حالات بیان کرتے ہوئے اس وقت ہم ۱۸۷ھ تک پہنچ گئے ہیں ۔ اس سال کے ابتدائی مہینہ میں ہارون الرشید نے اپنے وزیر جعفر برمکی کو قتل کرایا اور اس کے بھائی فضل اور باپ یحییٰ کو قید کر دیا۔ بادشاہوں اور خلیفوں کے حالات میں کسی وزیر کا قتل ہونا اور کسی وزیر کا قید ہونا کوئی غیر معمولی اور بہت ہی عظیم الشان واقعہ نہیں ہوا کرتا۔ فرمانرواؤں کی تاریخ اسی قسم کے واقعات سے لبریز ہوا کرتی ہے۔ بادشاہوں کے کارنامے عموماً خون کی روشنائی سے لکھے جاتے ہیں ، لیکن برامکہ کے زوال اور جعفر کے قتل کا معمولی واقعہ ہنگامہ پسند اور واقعہ پرست لوگوں اور دروغ باف قصہ گویوں ، ناول نویسوں اور عجائب پرست جاہلوں کی بدولت ایسی بد نما صورت اختیار کر چکا ہے کہ جس طرح آج محمود غزنوی اور اورنگ زیب عالمگیر کی نسبت بہت سے پڑھے لکھے جاہل اور عاقل نما احمق، غلط فہمی میں مبتلا ہو کر دوسروں کو غلط فہمی میں مبتلا کرتے اور مقصد اسلامی کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔
Flag Counter