نکلی جس میں خلیفہ نے اپنے پچاس سالہ عہد حکومت کے ان دنوں کا حال لکھا تھا۔ جن میں خلیفہ کو کوئی فکر نہ تھی اور ایسے دنوں کی تعداد جو افکار سے خالی تھے صرف چودہ تھی۔ وفات کے وقت خلیفہ کے گیارہ لڑکے موجود تھے۔ جن میں حکم بن عبدالرحمن ولی عہد تھا۔
عبدالرحمن ثالث کے عہد حکومت پر تبصرہ:
خلیفہ عبدالرحمن ثالث کا زمانہ اندلس کی حکومت اسلامیہ کا نہایت شاندار زمانہ تھا۔ ملک میں ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا۔ تجارت کی بہت بڑی ترقی تھی۔ اہل اندلس نے افریقہ و ایشیا کے دور دراز مقامات پر اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کر لی تھیں ۔ بحری طاقت میں کوئی ملک اور کوئی قوم اندلس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ تمام سمندروں پر گویا اندلسی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اس خلیفہ نے اپنے سرداروں اور اہل کاروں کو شاہی اختیارات نہیں دیئے بلکہ وہ خود ہر ایک اہم اور ضروری معاملہ کی طرف متوجہ ہوتا اور اہل کاروں پر کاموں کو چھوڑ کر بے فکر نہیں ہو جاتا تھا۔ اس نے ان عرب سرداروں اور فقیہوں کی طاقت کو جو حکومت و سلطنت پر حاوی تھے بتدریج کم کر کے ان لوگوں کو جو خلیفہ کے ہمدرد و خیر اندیش تھے بڑھایا اور اپنے ذاتی غلاموں کا ایک حفاظتی دستۂ فوج بنایا۔ خلیفہ کی نگاہ سے سلطنت کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام پوشیدہ نہیں رہتا تھا۔ تمام جزئیات تک خلیفہ کی نظر پہنچ جاتی تھی۔
اس خلیفہ نے جو سب سے بڑا کام کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں اور گروہوں میں جو مخالفت اور خانہ جنگی برپا رہتی تھی اس کو بالکل مٹا دیا۔ ہر ایک جماعت اور ہر ایک گروہ کو اس کے مرتبہ کے موافق سلطنت کی طرف سے حقوق حاصل تھے اور کوئی گروہ نہ سلطنت کا دشمن تھا نہ آپس میں ایک دوسرے سے چھری کٹاری ہونا چاہتے تھے۔ اسی میں خلیفہ عبدالرحمن ثالث کی کامیابیوں کا راز مضمر تھا۔ اور یہی وہ چیز تھی جس کے سبب اندلسی مسلمانوں کی عظمت تمام دنیا کی نگاہوں میں پیدا ہو گئی تھی۔
اس خلیفہ کے زمانے میں غیر مسلم لوگوں یعنی عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے ساتھ نہایت مروت اور نرمی کا برتاؤ ہوتا تھا۔ خلیفہ عبدالرحمن کی حدود حکومت میں رہنے والے تمام عیسائی خلیفہ عبدالرحمن کو اس قدر محبوب رکھتے تھے کہ اس معاملہ میں وہ مسلمانوں سے ہرگز کم نہ تھے۔
مسلمان مولویوں کے تنگ دل اور سخت گیر طبقہ کو اس خلیفہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رعایتوں کی طرف توجہ دلائی، جو وہ غیر مسلم لوگوں کے ساتھ روا رکھتے تھے اور ان کو مجبور کیا کہ وہ قرآن و حدیث کی اصل روح سے واقف ہوں اور حقیقت شریعت سے آگاہ ہو کر تنگ چشمی کو چھوڑ دیں ۔ اس کام میں اس خلیفہ کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس کا زمانہ خیر و برکت کا زمانہ سمجھا گیا۔
|