Maktaba Wahhabi

484 - 868
تھا۔ شمالی عیسائی ریاستوں کو طاقتور ہونے اور پھیلنے کا موقع ہی نہیں مل سکتا تھا بہر حال سلطان منذر طلیطلہ پر قبضہ کرنے کے لیے بیتاب تھا اور بظاہر عمر بن حفصون کی طرف سے اس کو کامل اطمینان ہو چکا تھا۔ راستے میں عمر بن حفصون کو کسی نے اس کا وہ انجام یاد دلایا جو فقہاء کے فتوے کی تعمیل میں ہونے والا ہے۔ حالانکہ سلطان منذر اس کی دل دہی پر آمادہ اور اس سے اہم خدمات سلطنت لینے کا ارادہ رکھتا تھا مگر جب عمر بن حفصون کو اپنا وہ واقعہ یاد آیا کہ محض فقہاء کی مخالفت نے اس کو ہاشم بن عبدالعزیز کے لشکر سے جدا ہو کر بھاگنے اور اپنے ارتداد کا اعلان کرنے پر مجبور کیا تھا۔ نیز جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ ہاشم بن عبدالعزیز بھی انہی حضرات کے فتووں کی بنا پر قتل ہو چکا ہے تو وہ اپنے قتل ہونے کو یقینی سمجھنے لگا اور قرطبہ تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ لوگوں سے آنکھ بچا کر بھاگ نکلا۔ سیدھا اپنے قلعہ میں پہنچ کر قلعہ بند ہو بیٹھا اور ارد گرد سے اپنے تمام آدمیوں کو جمع کر لیا۔ سلطان منذر کی وفات: سلطان منذر پھر اس کی طرف لوٹا۔ اب کی مرتبہ بڑی سختی سے قلعہ کا محاصرہ شروع کیا۔ عمر بن حفصون نے بھی بڑی ہمت کے ساتھ مدافعت جاری رکھی۔ اس محاصرے نے طول کھینچا اور قلعہ ابھی فتح نہ ہو پایا تھا کہ سلطان منذر نے ۲۷۵ھ میں بحالت محاصرہ دو برس سے بھی کم حکومت کر کے قریباً ۴۶ سال کی عمر میں وفات پائی۔ سلطان منذر کے کوئی بیٹا نہ تھا۔ اس لیے امراء لشکر نے منذر کے بھائی عبداللہ کے ہاتھ پر قلعہ کی دیوار کے نیچے بیعت کی۔ عبداللہ نے عمر بن حفصون کے پاس پیغام بھیجا کہ مجھ کو تم سے کوئی مخالفت و پرخاش نہیں ہے۔ اب تم اپنے قلعہ میں اطمینان سے رہو ہم قرطبہ کو واپس جاتے ہیں ۔ گویا سلطان عبداللہ نے اپنی تخت نشینی کے ساتھ ہی عمر بن حفصون کی ریاست و حکومت کو بھی باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا۔ عمر بن حفصون نے اس کو بہت غنیمت سمجھا اور سلطان عبداللہ اپنے بھائی منذر کے جنازے کو لے کر قرطبہ پہنچا۔ راستہ میں عرب سرداروں کی چہ میگوئیاں حد سے بڑھ گئیں اور سلطان عبداللہ کو متہم کرنے میں یہاں تک مبالغہ سے کام لیا گیا کہ قرطبہ تک پہنچتے پہنچتے تمام فوج ادھر ادھر منتشر ہو گئی اور سو آدمیوں سے بھی کم آدمی سلطان عبداللہ کے ساتھ سلطان منذر کا جنازہ لیے ہوئے قرطبہ میں داخل ہوئے۔ عبداللہ بن محمد کی پہلی کمزوری: سلطان عبداللہ بن محمد نے تخت نشین ہوتے ہی یہ کمزوری دکھائی کہ عمر بن حفصون کی حکومت تسلیم کر کے محاصرہ اٹھا لیا، حالانکہ اس کے لیے قدرتی طور پر اپنے عنوان سلطنت کو شاندار بنانے کا موقع تھا کہ وہ
Flag Counter