مبذول کی۔ اس نے ہزارہا ترکی غلام خریدے اور ان کی فوج تیار کی۔ اس نے فرغانہ و اشر و سنہ کے علاقوں سے ترکوں کو بھرتی کرایا۔ ان ترکوں کی جنگ جوئی و صعوبت کشی اس کو بہت پسند تھی۔
اب تک فوج میں عربی و ایرانی دو ہی قسم کے لوگ ہوتے تھے اور ترکوں سے برابر سرحد پر لڑائی جھگڑے برپا رہتے، کبھی ترک سردار باج گزار بن جاتے کبھی باغی ہو کر مقابلہ پر آتے اور فوجی طاقت سے مغلوب و محکوم بنائے جاتے، ان پر یہ اعتماد نہیں کیا گیا تھا کہ ان کو فوج میں بھرتی کیا جاتا۔ معتصم نے ان کو اپنی فوج میں اس کثرت سے بھرتی کیا اور ترکوں کو اس قدر فوجی عہدے دیے کہ تعداد کے اعتبار سے بھی ترکی فوج ایرانی فوج کی مد مقابل بن گئی۔
عربی قبائل کم ہوتے ہوتے صرف مصر و یمن کے قبائل خلیفہ کی فوج میں باقی رہ گئے تھے۔ خلیفہ نے تمام عربی النسل دستوں کو ملا کر ایک الگ فوج تیار کی اور اس کا نام مغاربہ رکھا۔
سمر قند و فرغانہ و اشروسنہ کے ترکوں کی فوج جو سب سے زیادہ زبردست اور بڑی فوج تھی اس کا نام فراغنہ تجویز کیا۔ خراسانی لشکر کو لشکر فراغنہ سے رقابت پیدا ہوئی، خلیفہ معتصم نے چونکہ بڑے شوق سے ترکوں کی جدید فوج قائم کی تھی، لہٰذا ہر قسم کی مراعات اسی فوج کو حاصل تھیں ان کی وردی بھی زیادہ قیمتی اور خوبصورت تھی۔ ان کے گھوڑے بھی زیادہ اچھے تھے۔ ان کی تنخواہیں اور وظیفے بھی دوسروں سے زیادہ تھے۔ اس لیے خراسانیوں نے بغداد میں ان سے لڑائی جھگڑے شروع کر دیے۔ معتصم باللہ نے یہ رنگ دیکھ کر بغداد سے نوے (۹۰) میل کے فاصلے پر دجلہ کے کنارے نہر قاطون کے مخرج کے قریب لشکر فراغنہ کی چھاؤنی قائم کی، وہیں اس نے ایک قصر اپنے رہنے کے لیے تعمیر کیا، فوج کے لیے مکانات بنوائے، بازار و جامع مسجد وغیرہ تمام ضروری عمارات بنوا کر اور ترکوں کو آباد کر کے خود بھی اس نو تعمیر شہر میں چلا گیا۔ اس نئے شہر کا نام سر من رای رکھا گیا جو کثرت استعمال سے سامرا مشہور ہو گیا۔
دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے چند ہی روز میں سامرا کی رونق و آبادی بغداد کے مد مقابل بن گئی اور عربی و خراسانی عنصر کے بجائے ترکی عنصر دارالخلافہ اور خلیفہ پر مستولی ہو گیا۔ اسی سال محمد بن علی رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق فوت ہو کر بغداد میں مدفون ہوئے۔
فضل بن مروان کی معزولی :
اسی سال یعنی ۲۲۰ھ میں وزیراعظم فضل بن مروان کی نسبت خلیفہ کے کانوں میں بد دیانتی کی شکایات پہنچیں ۔ خلیفہ نے حسابات کی جانچ پڑتال کے لیے اہل کار مامور فرمائے تو دس لاکھ دینار کا غبن نکلا۔ خلیفہ نے یہ روپیہ فضل کے مال و اسباب سے وصول کیا۔ اور اس کو موصل کے قریب کسی گاؤں میں
|