حالت میں رعایا کے جان و مال کا محفوظ نہ ہونا یقینی بات تھی لیکن بخلاف اس کے عمر بن حفصون نے اپنے چھوٹے سے مقبوضے میں جس پر وہ غاصبانہ اور باغیانہ طور پر قابض و متصرف تھا قابل رشک امن و امان قائم کر رکھا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کی آبادی کو اس کے ساتھ محبت اور ارد گرد کے علاقوں کو بھی اس سے ہمدردی پیدا ہو گئی۔
سلطان محمد کی وفات:
۲۷۲ھ کے آخر اور ۲۷۳ھ کے شروع میں منذر بن محمد ولی عہد سلطنت فوج لے کر عمر بن حفصون کے مقابلہ کو آیا ابتدا چند چھوٹی چھوٹی معرکہ آرائیاں ہوئیں ۔ اس کے بعد بہت زیادہ ممکن تھا کہ عمر بن حفصون کو مغلوب یا مقتول یا گرفتار کر لیا جائے۔ عمر بن حفصون زخمی ہو چکا تھا اس کو اور اس کی فوج کو منذر بن محمد نے محصور کر کے اس قدر مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو منذر کے سپرد کر دینے والا تھا کہ اسی اثنا میں منذر کے پاس سلطان محمد کے فوت ہونے کی خبر پہنچی منذر اس خبر کو سنتے ہی بلاتوقف قرطبہ کی جانب روانہ ہو گیا اور عمر بن حفصون اس طرح مع اپنی جماعت کے برباد ہونے سے بچ گیا۔
سلطان محمد ۲۰۷ھ میں پیدا ہوا تھا قریباً ۴۴ سال کی عمر پا کر ماہ صفر ۲۷۳ھ میں ۳۴ سال چند ماہ حکومت کرنے کے بعد فوت ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا منذر تخت نشین ہوا۔
سلطان محمد کے عہد حکومت پر تبصرہ:
سلطان محمد کے عہد حکومت میں اندلس پر بدامنی طاری رہی۔ اس کو ایک روز بھی مطمئن ہو کر بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ اندرونی بغاوتوں اور بیرونی سازشوں کے ختم نہ ہونے والے سلسلے نے سلطان محمد کو ہمیشہ مصروف و پریشان رکھا۔ سلطان محمد کے زمانے میں خاندان بنو امیہ کی حکومت بہت ہی کمزور اور بے وقار ہو گئی تھی معمولی اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو بھی بغاوت و سرکشی کی جرائت ہو گئی تھی۔ سلطنت اموی کے اس ضعف و اختلال نے عیسائیوں کو بہت فائدہ پہنچایا انہوں نے اپنے آپ کو خوب طاقتور بنا کر اس بات کو ممکن سمجھا کہ ہم اندلس میں پھر عیسائی حکومت قائم کر سکیں گے۔
سلطان محمد ذاتی طور پر بہادر اور مستعد بادشاہ تھا مگر اندرونی بغاوتوں اور خود مسلمان سرداروں کی غداریوں نے ملک کی حالت کو اس قدر نازک بنا دیا تھا کہ ان کی مخالفتوں اور سازشوں کا یہ طوفان سلطان محمد کے زمانے میں سلطنت اسلامیہ کی خرابی و بے عزتی کا باعث ہوا۔ اس کے علاوہ عیسائی سلاطین اور عباسی خلفاء اندلسی مسلمانوں میں نااتفاقی پیدا کرانے میں کوشاں تھے۔ لیکن اب عیسائیوں کا جوش مخالفت تو سرد ہو چکا تھا اور ان کو اس قدر ہوش ہی نہ رہا کہ وہ سلطنت اندلس کی طرف توجہ کرتے۔ عیسائیوں کی
|