Maktaba Wahhabi

479 - 868
سرکوبی کے لیے روانہ ہوا، کئی معرکے ہوئے۔ آخر ہاشم نے سلام و پیام کے ذریعہ عمر بن حفصون کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی اور اس کو معافی کا وعدہ دے کر اپنے ساتھ قرطبہ چلنے پر رضا مند کر لیا۔ عمر بن حفصون وزیر ہاشم کے ساتھ قرطبہ چلا آیا۔ وزیر ہاشم اس کی بہادری دیکھ کر خوش ہوا تھا اس نے سلطان محمد سے کہہ کر عمر بن حفصون کو افواج سلطانی کا سپہ سالار اعظم مقرر کرا دیا۔ اس کے بعد ۲۷۱ھ میں وزیر ہاشم عمر بن حفصون کو ایک زبردست فوج کے ساتھ ہمراہ لے کر شمال کی جانب متوجہ ہوا۔ وہاں اہل سرقسطہ پھر باغی ہو گئے تھے۔ اور ریاست ایسٹریاس کی جانب سے خطرات پیدا ہو رہے تھے۔ عمر بن حفصون نے ان لڑائیوں میں بڑی شہرت و ناموری حاصل کی، اہل سرقسطہ اور عیسائیان ایسٹریاس کو پیہم شکستیں دے کر اور خراج وصول کر کے یہ دونوں واپس ہوئے عمر بن حفصون کو حکومت اسلامیہ کی سپہ سالاری کچھ پسند نہ آئی، کیونکہ اس طرح وہ اپنی ان امیدوں کو کہ دوبارہ گاتھک حکومت قائم ہو جائے پورا نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ راستہ ہی سے وہ فرار اور وزیر ہاشم سے جدا ہو کر بھاگا اور سیدھا اپنے اسی پرانے قلعے میں پہنچ کر مضبوط ہو بیٹھا۔ اس کے قدیمی دوست اور پرانے رفیق پھر آ آکر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ ادھر عمر بن حفصون نے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر نواح مالقہ میں خود مختارانہ حکومت شروع کی، ادھر عبدالرحمن بن مروان نے جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اشبیلیہ اور اس کے نواحی علاقے میں لوٹ مار شروع کر دی۔ سلطان محمد نے اشبیلیہ کی طرف اپنے بیٹے منذر اور وزیر ہاشم کو فوج دے کر بھیجا اور عمر بن حفصون کو اپنی حکومت و ریاست قائم کر لینے کے لیے نہایت قیمتی صورت مل گئی۔ وہاں اشبیلیہ کے نواح میں دو سال تک جنگ و پیکار کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر ۲۷۲ھ میں عبدالرحمن بن مروان کو تھوڑا سا علاقہ اور دے کر صلح کر لی گئی اور اس طرف کی ہنگامہ آرائی ختم ہوئی۔ اس کے بعد شہزادہ منذر کو عمر بن حفصون کی طرف بھیجا گیا۔ عمر بن حفصون جب سے سپہ سالاری چھوڑ کر آیا تھا۔ پہلے کی نسبت زیادہ شائستہ اور مآل اندیش بن گیا تھا۔ اس نے دربار قرطبہ اور وزیر ہاشم کی صحبت سے بہت فائدہ اٹھایا اور اس مرتبہ آکر بجائے ایک ڈاکو اور رہزن کے وہ ایک فرماں روا اور والیٔ ملک کی حیثیت میں نمودار ہوا اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جس قدر حصہ ملک پر اس کا قبضہ تھا اس میں چوری اور ڈاکہ زنی کا بالکل انسداد کر دیا، وہ رہزنوں ، چورں اور ظالموں کو نہایت عبرتناک سزائیں دیتا اور بالخصوص اپنے سپاہیوں اور فوجی سرداروں کو تو قطعاً رعایا پر ظلم نہ کرنے دیتا اور اس کا اثر اس کی حکومت و طاقت کے بڑھانے کا موجب ہوا اور یہی وہ گر تھا جو عمر بن حفصون دربار قرطبہ سے یاد کر کے آیا تھا۔ آج کل رعب سلطنت باقی نہ رہنے سے ملک میں ہر طرف بدامنی کا دور دورہ تھا اور ایسی
Flag Counter