Maktaba Wahhabi

370 - 868
چکا تھا، تدمیر نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ حملہ کیا، مگر طارق نے اس کو شکست دے کر بھگا دیا، تدمیر نے طارق سے شکست کھا کر اور ایک محفوظ مقام میں پہنچ کر بادشاہ لرزیق کو اطلاع دی کہ’’اے شہنشاہ! ہمارے ملک پر ایک غیر قوم نے حملہ کیا ہے، میں نے ان لوگوں کا مقابلہ کیا اور پوری ہمت و شجاعت سے کام لیا، لیکن مجھ کو اپنی کوششوں میں ناکامی ہوئی اور میری فوج ان لوگوں کے مقابلہ میں قائم نہ رہ سکی، ضرورت ہے کہ آپ بہ نفس نفیس زبردست فوج اور پوری طاقت کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوں ، میں نہیں جانتا کہ یہ حملہ آور لوگ کون ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں ؟ آیا آسمان سے اترے ہیں یا زمین سے نکل آئے ہیں ؟‘‘ شاہ لرزیق کی تیاریاں : اس وحشت انگیز خبر کو سن کر لرزیق نے تمام تر توجہ فوجوں کے فراہم کرنے میں صرف کر دی۔ لرزیق طلیطلہ سے روانہ ہو کر قرطبہ میں آیا اور یہیں ملک کے ہر حصہ سے فوجیں آکر فراہم ہونے لگیں ، لرزیق نے خزانوں کے منہ کھول دیے اور بڑی مستعدی و ہمت کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب فوج لے کر قرطبہ سے طارق کی طرف روانہ ہوا، تدمیر بھی اپنی فوج لے کر ہمراہ رکاب ہوا، اس عرصہ میں طارق بیکار نہیں رہا، اس نے شہروں اور قصبوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور الجزائر و شدونہ کے علاقوں کو فتح کر کے وادی لکتہ تک پہنچ گیا تھا، لرزیق کی فوج میں ایک لاکھ سپاہیوں کے علاوہ ملک اندلس کے تمام بڑے بڑے تجربہ کار سپہ سالار اور ہر صوبے کے نامور سردار موجود تھے۔ پہلی جنگ : شہر شدونہ کے متصل لاجنڈا کی جھیل کے قریب ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے ۲۸ رمضان المبارک ۹۲ھ مطابق ماہ جولائی ۷۱۱ء کو دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا، موسیٰ بن نصیر نے طارق کے روانہ ہونے کے بعد افریقہ سے پانچ ہزار فوج بغرض کمک اور روانہ کر دی تھی، یہ پانچ ہزار فوج بھی طارق کے پاس اس مقابلے سے پہلے پہنچ چکی تھی، لہٰذا طارق کی فوج اب بارہ ہزار ہو گئی تھی، ایک طرف بارہ ہزار مسلمان تھے، دوسری طرف ایک لاکھ عیسائی تھے، مسلمان اس ملک کے حالات سے ناواقف اور بالکل اجنبی تھے، عیسائی لشکر اسی ملک کا رہنے والا تھا اور اپنے ملک و سلطنت کے بچانے کو میدان میں آیا تھا، ادھر اسلامی لشکر کا سردار گورنر افریقہ موسیٰ بن نصیر کا آزاد کردہ غلام طارق بن زیاد تھا جو کوئی غیر معمولی قدردانی نہیں کر سکتا تھا، ادھر ملک اندلس کا شہنشاہ عیسائی لشکر کی سپہ سالاری کر رہا تھا، جس کے قبضہ میں ملک کے تمام خزانے اور ہر قسم کی عزت افزائی و قدردانی کے سامان تھے، ادھر فوج میں اکثر نو مسلم بربری
Flag Counter