Maktaba Wahhabi

538 - 868
گیارہواں باب: دیگر متحارب سلاطین بنو عباد، بنو ذوالنون، بنو ہود وغیرہ خاندان بنو حمود کی حکومت کا حال اوپر ذکر ہو چکا ہے، لیکن خاندان بنو امیہ کی حکومت چوتھی صدی ہجری کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی، خاندان بنو حمود کا حال بیان کرتے ہوئے ہم ۴۵۰ھ تک پہنچ گئے، حالانکہ حمود کا تعلق جزیرہ نمائے اندلس کے بہت چھوٹے سے ٹکڑے کے ساتھ رہا، ان کے ہم عصر اور بھی خاندان الگ الگ صوبوں پر خود مختارانہ حکومت کر رہے تھے، ان سب کے حالات تفصیلی طور پر بیان کرنے میں زیادہ وقت اور زیادہ اوراق صرف نہیں کیے جا سکتے، لہٰذا بطور اجمال ذیل میں اس طوائف الملوکی کی باقی داستان سنائی جاتی ہے، اندلس کی تاریخ کے اس حصہ کو حسرت و افسوس، اور خون کے آنسوؤں سے لبریز سمجھنا چاہیے، ذیل میں صرف وہ قابل تذکرہ باتیں درج کی جاتی ہیں جن کے وقوع کا زمانہ معلوم ہونے سے واقعات تاریخی کا تسلسل بہ آسانی قائم ہو سکے، ذیل کے واقعات کو ملاحظہ فرماتے ہوئے یہ تصور ہمیشہ قائم رکھنا چاہیے کہ شمالی عیسائی حکومتیں دم بہ دم اپنی طاقت اور وسعت کو ترقی دے رہی ہیں اور سب کی تمام تر توجہ اسی کوشش میں صرف ہو رہی ہے کہ مسلمان سلاطین اندلس آپس میں دست و گریباں رہیں اور وہ مسلمانوں کی دولت اور مملکت کو جہاں تک ممکن ہو بہ آسانی غصب کرتے رہیں ۔ اشبیلیہ و غربی اندلس (بنو عباد): بنو عباد میں محمد بن اسمٰعیل بن قریش قصبہ طشانہ کا صاحب الصلٰوۃ یعنی امام تھا، اس کا بیٹا اسمٰعیل ۴۱۳ھ میں دربار اشبیلیہ کا وزیر مقرر ہوا، ۴۱۴ھ میں اسمٰعیل بن محمد کا بیٹا ابوالقاسم محمد اشبیلیہ کا قاضی اور وزیر مقرر ہوا، جب قاسم بن حمود اشبیلیہ کی جانب آیا تو ابوالقاسم محمد قاضی اشبیلیہ اور محمد بن زبیری نے اشبیلیہ پر قابض ہو کر اس کو شہر میں داخل نہ ہونے دیا۔ ابوالقاسم محمد: اس کے بعد ابوالقاسم محمد نے محمد بن زبیری کو بھی اشبیلیہ سے نکال دیا اور خود اشبیلہ کا حاکم بن بیٹھا، قاسم بن حمود قرمونہ کی طرف چلا گیا تھا، وہاں محمد بن عبداللہ برزالی نے ۴۰۴ھ سے اپنی خود مختار حکومت قائم کر رکھی تھی، چند روز وہاں رہ کر قاسم بن حمود قلعہ سریش کی طرف چلا آیا تھا اور محمد بن عبداللہ قرمونہ میں
Flag Counter