Maktaba Wahhabi

825 - 868
دو سو برس کے بعد سلطان محمد خان فاتح نے اس سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور بجائے ایڈریا نوپل کے قسطنطنیہ عثمانیہ سلطنت کا دارالسلطنت ہوا، قسطنطنیہ سوا گیارہ سو سال تک عیسائی حکومت کا دارالسلطنت رہ کر اسلامی حکومت کا دارالسلطنت بنا اور پونے پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ تک اسلامی حکومت و خلافت کا درالسلطنت اور دارالخلافہ رہنے کے بعد ہمارے اس زمانہ میں جب کہ خلافت عثمانیہ کا سلسلہ ختم ہونے پر انگورہ ترکوں کی اسلامی جمہوری حکومت کا دارالحکومت قرار پایا۔ قسطنطنیہ کی دارالحکومت ہونے کی خصوصیت جاتی رہی تاہم وہ دنیا کا ایک نہایت اہم عظیم الشان شہر اور مسلمانوں کا مایہ ناز مقام ہے۔ سلطان فاتح کے بقیہ کار نامے: قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان فاتح نے چند روز تک اپنی توجہ قسطنطنیہ کی آبادی اور رونق بڑھانے میں صرف کی، لیکن وہ ساتھ ہی یہ بات بھی سوچتا رہا کہ یونان کا جنوبی حصہ جو ایک جزیرہ نما کی صورت میں بحر روم میں چلا گیا ہے، تمام و کمال سلطنت عثمانیہ میں شامل ہونا چاہیے، تاکہ آئندہ کے لیے بہت سے خرخشے جو اٹلی وغیرہ کی بحری ترک و تاز سے پیدا ہو سکتے ہیں مٹ جائیں ۔ لہٰذا فتح قسطنطنیہ سے اگلے سال سلطان فاتح نے جنوبی یونان کی خود مختار چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو فتح کر کے سلطنت عثمانیہ میں شامل کیا اسی جنوبی یونان میں ایک چھوٹی سی ریاست قیصر قسطنطین کی اولاد نے قسطنطنیہ سے فرار ہو کر قائم کی تھی اس فتح کے بعد قیصر قسطنطین کے بعض ارکان خاندان نے جو یہاں موجود تھے اسلام قبول کر لیا تھا اوپر یہ بات بیان ہونے سے رہ گئی تھی کہ جب مسلمانوں کی فوج نے قسطنطنیہ کو فتح کر لیا اور تمام ملاح فتح کی خوشی میں اپنی اپنی کشتیوں کو چھوڑ کر شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے عیسائیوں نے جو باہر نکل سکے بندرگاہ میں پہنچ کر ان عثمانی کشتیوں کو جو بندرگاہ میں کھڑی تھیں اپنے فرار ہونے کا ذریعہ بنایا اور انہی عثمانی کشتیوں میں سوار ہو ہو کر درہ دانیال کے راستے جنوبی یونان اور اٹلی کی جانب بھاگ گئے، جنوبی یونان کی فتح سے فارغ ہو کر سلطان نے ریاست وینس کی طرف توجہ کی مگر اس ریاست نے دب کر سلطان سے صلح کا عہد نامہ کر لیا ۶۰۱ھ میں قسطنطنیہ کے شاہی خاندان کا ایک شخص مسمی کوم نینی جو صلیبی مجاہدین کے مذکورہ ہنگامہ میں قسطنطنیہ سے نکال دیا گیا تھا اس نے بحر اسود کے جنوبی ساحل پر مقام طرابزون میں مقیم ہو کر اپنی ایک جداگانہ چھوٹی سی عیسائی ریاست قائم کر لی تھی اس ساحلی ریاست کی طرف کسی نے زیادہ التفات نہیں کیا اور ڈھائی سو سال تک وہ اس طرح قائم رہی کہ جب کسی مسلمان فرماں روا نے اس طرف توجہ کی اس نے فوراً انقیاد و فرماں برداری کی گردن جھکا دی اور جب مسلمانوں کو خانہ جنگی میں مصروف ہونے کا اتفاق ہوا وہ باج و خراج کی قید سے آزاد ہو گئی۔ ایشیائے کوچک پر ترکوں کا قبضہ ہو گیا
Flag Counter