کا کام تھا، قلعوں کے محاصرہ کرنے میں اس کے مشوروں ، اور تجویزوں کو ہمیشہ خصوصی اہمیت حاصل ہوتی تھی۔
امیر التعمیر یا رئیس البناء:
یہ چیف انجینئر ہوتا تھا، محلات شاہی کی تعمیر و مرمت، شہروں کی آبادی کا تعمیری کام، نہروں کا نکالنا، پلوں کا بنانا، بند باندھنا وغیرہ سب اسی کا کام تھا۔
امیر البحر:
جنگی جہازوں اور بحری فوجوں کے افسر کو امیر البحر کہتے تھے، امیر البحر کے ماتحت بہت سے قائد ہوتے تھے۔ ہر ایک قائد کے ماتحت ایک جنگی جہاز ہوتا تھا، قائد کو کپتان سمجھنا چاہیے۔
طبیب:
ایک سے زیادہ تجربہ کار و ہوشیار طبیب دارالخلافہ میں موجود اور دربار میں حاضر رہتے تھے، علمی مجالس میں ان کی شرکت ضروری تھی، ان کے ماتحت دارالشفاء اور دواخانے سرکاری مصارف سے جاری تھے، ان میں ہر ملک اور ہر مذہب کے طبیب شامل تھے، ان میں سے اکثر دارالتصانیف، دارالترجمہ اور بیت الحکمہ کی رونق و عزت کا موجب تھے۔
سلطنت کے قابل تذکرہ صیغے اور دفتر:
خلیفہ اگرچہ مطلق العنان فرماں روا سمجھا جاتا تھا مگر وہ اپنی حکمرانی و فرماں روائی میں بالکل خلیع الرسن اور آزاد نہ تھا، خلیفہ بناتے وقت جب اس کے ہاتھ پر بیعت کی جاتی تھی تو اس میں اتباع قرآن و سنت کی شرط ضرور ہوتی تھی، علماء و فقہاء خلیفہ کے خلاف شرع کاموں پر اعتراض کرنے اور اس کو روکنے ٹوکنے کا حق رکھتے تھے، اس حق کے استعمال کرنے میں اگر خلیفہ کی طاقت سدراہ ہو تو عوام اس طاقت کا مقابلہ کر کے اور علماء شرع کی حمایت پر مستعد ہو کر خلیفہ کو نیچا دکھانے اور معزول کرنے پر فوراً آمادہ ہو جاتے تھے، بعض اوقات علماء اپنے اس فرض اور حق کو ادا کرنے میں پہلو تہی کرتے تھے، اسی کا نتیجہ تھا کہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور خلافت دم بدم کمزور ہو چلی گئی۔
خلیفہ کی ذات میں جو عظمت و شوکت موجود ہوتی تھی اس کے ذریعے خلیفہ کبھی کبھی بلا مشورہ بھی احکام جاری کر دیتا اور اپنے احکام کی تعمیل کرا سکتا تھا، لیکن عام طور پر رعایا کے سود و بہبود سے تعلق رکھنے والے کام سب مقررہ قوانین و آئین کے تحت انجام پذیر ہوتے تھے اور بحیثیت مجموعی سلطنت کی مشین نہایت باقاعدگی کے ساتھ چلتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ باوجود سلاطین کی آپس کی لڑائیوں اور امراء کی
|