Maktaba Wahhabi

385 - 868
اشبیلیہ سے قرطبہ میں دارالامارت کی منتقلی: امیر ایوب بن حبیب نے یہ دیکھ کر کہ اشبیلیہ میں عیسائیوں اور یہودیوں کی بڑی آبادی ہے اور وہ امیر عبدالعزیز کے مخصوص طرز عمل سے زیادہ قابو یافتہ ہو چکے ہیں ، اشبیلیہ کو ترک کر کے قرطبہ کو دارالامارت بنایا، امیر ایوب کے کارناموں میں قرطبہ کو دارالسلطنت بنانا بھی ایک عظیم الشان اور قابل تذکرہ کارنامہ اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ اس کے بعد عرصۂ دراز تک قرطبہ ہی مسلمانوں کا دارالحکومت اور پھر دارالخلافہ رہا اور قرطبہ کی شہرت نے تمام دنیا کا احاطہ کر لیا، اس کے بعد امیر ایوب نے افریقہ و مراکش سے بربری اور عربی قبائل کو اندلس میں آکر آباد ہونے کی دعوت دی، چنانچہ بہت سے مسلمان اندلس میں آئے اور امیر ایوب نے ان کو اندلس کے مختلف شہروں اور قصبوں میں آباد کیا، اس طرح عیسائیوں کی بغاوت کا اندیشہ ایک حد تک دور ہو گیا، سرحدوں پر قلعے بنائے گئے، وہاں حفاظتی فوج رکھی گئی، امیر ایوب نے ملک کا دورہ کر کے حالات سے واقفیت حاصل کی اور جہاں جس قسم کی ضرورت دیکھی اس کا انتظام کیا، امیر ایوب اپنی امارت کے صرف چھ ہی مہینے پورے کرنے پایا تھا کہ اس کی معزولی کا حکم لے کر حرب بن عبدالرحمن ثقفی پہنچ گیا، بات یہ تھی کہ امیر ایوب بن حبیب کی مستعدی و جفاکشی کا حال سن کر محمد بن یزید حاکم قیروان کو شبہ پیدا ہوا کہ چونکہ ایوب بھی عبدالعزیز و موسیٰ ہی کے خاندان کا شخص ہے ممکن ہے کہ وہ کسی وقت موجب تکلیف ثابت ہو، لہٰذا اس نے باختیار خود حرب بن عبدالرحمن بن عبدالرحمن کو سند حکومت دے کر اندلس روانہ کیا کہ ایوب کو معزول کر کے خود اندلس پر قبضۂ حکومت کرو اپنے اس انتظام کی اطلاع دربار خلافت میں بھیج کر منظوری حاصل کر لی۔ حرب بن عبدالرحمن ثقفی : حرب بن عبدالرحمن نے اندلس میں پہنچ کر زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور موسیٰ و عبدالعزیز و ایوب کے زمانے کے تمام اہل کاروں کو بدگمانی کی نظر سے دیکھ کر ان پر سختی و تشدد شروع کیا، نیز عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سخت برتاؤ کیا۔ عیسائی اور یہودی اس سے پیشتر اپنے لیے مسلمان حکمرانوں کو بہت ہی رحیم و کریم دیکھ چکے تھے، انہوں نے اپنا ایک وفد قیروان روانہ کیا کہ محمد بن یزید سے گزارش کر کے اس امیر کو تبدیل کرائے، محمد بن یزید نے اس طرف توجہ نہ کی کیونکہ حرب بن عبدالرحمن کو اسی نے مقرر کر کے بھیجا تھا، اس وفد نے ہمت سے کام لے کر دمشق کا راستہ لیا یہ وہ زمانہ تھا کہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے بعد سیّدنا عمر بن عبدالعزیز تخت خلافت پر متمکن تھے، چنانچہ وہ وفد خلیفۃ المسلمین سیّدنا عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں حاضر ہوا اور
Flag Counter