سرکاری مصارف:
سرحد روم پر جو فوجیں مستقل طور پر سرحدی چھاؤنیوں میں رہتی تھیں ، ان کو دوسری فوجوں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہ ملتی تھی، ان فوجوں میں عموماً ہر ایک سپاہی کو (چاندی کے سکے سے حساب کریں تو) پندرہ روپیہ سے تیس روپیہ تک تنخواہ دی جاتی تھی، ایک فوج دارالخلافہ میں ہمیشہ موجود رہتی تھی، فوج کا ایک حصہ راستوں کی حفاظت پر مقرر اور ہزارہا مرحلوں کی چوکیوں پر منقسم تھا، بڑے بڑے شہروں اور مرکزی مقاموں میں بھی فوج کی ایک تعداد موجود رہتی تھی، شہروں کی حفاظت کے لیے جو پولس محتسب کے ماتحت اور صاحب الشرطہ کی نگرانی میں رہتی تھی، اس کو بھی سرکاری خزانہ سے تنخواہ ملتی تھی، خزانہ کی ایک بہت بڑی مقدار فوج کے لیے صرف ہو جاتی تھی، محکمہ ڈاک کے سپاہی، سواری کے جانور اور اہل کاران ڈاک کا خرچ بھی اسی میں شامل سمجھنا چاہیے۔
رضا کار جو عموماً سرحد روم کی لڑائیوں میں شامل ہونے کے لیے بھرتی ہو کر جاتے تھے، ان کو کھانا، سواری اور تمام ضروری چیزیں سلطنت کی طرف سے ملتی تھیں ، ان کی غیر موجودگی میں ان کے اہل و عیال کو نقد و ظیفہ یا کھانے پینے کی اجناس سرکاری طور پر مہیا کی جاتی تھی۔ جنگ کی حالت میں فوج کے خورد نوش کا تمام اہتمام اور بوجھ سرکاری خزانہ پر پڑتا تھا، رومیوں کے ساتھ لڑائیوں کا سلسلہ برابر جاری رہا، اس لیے خلفاء کو سرحد روم پر بہت سے شہر آباد کرنے اور قلعے بنانے پڑے، صوبوں کی فوجوں کے تمام مصارف صوبوں کے خزانے پر پڑتے تھے، مگر سرحد روم، بغداد، عراق، محکمہ ڈاک، راستوں کی حفاظت کرنے والی اور خلیفہ کی ذاتی فوج اور رضا کاروں کی افواج کے تمام مصارف خلیفہ کے مرکزی خزانہ سے پورے کیے جاتے تھے، ہر ایک نیا تخت نشین ہونے والا خلیفہ فوج کو انعام دیتا تھا۔
بڑے بڑے اہل کاروں کو جاگیریں بھی دی جاتی تھیں اور ان کی تنخواہیں بھی مقرر ہوتی تھیں ، شہروں اور قلعوں کی تعمیر کے علاوہ مدرسے، سرائیں ، پل، نہریں ، کنویں اور مسجدیں وغیرہ بھی ہمیشہ تعمیر ہوتے رہتے تھے، صناعوں ، موجدوں اور کاریگروں کو بڑے بڑے انعامات اور وظیفے دئے جاتے تھے جن سے ان کی خوب ہمت افزائی اور دوسروں کو ترغیب ہوتی تھی، حکیموں ، طبیبوں ، شاعروں ، عالموں ، فقیہوں کو بے دریغ انعام و اکرام سے مالا مال کیا جاتا تھا، بعض عیسائی اور یہودی طبیب بغداد میں اس قدر مال دار ہو گئے تھے کہ خلیفہ کے سوا کوئی دوسرا شخص مال و دولت میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
بغداد میں بہت سے مدرسے تھے جن کے شاہانہ مصارف بڑی سیر چشمی سے ادا کیے جاتے تھے، اسی طرح دوسرے شہروں میں اعلی درجہ کے دارالعلوم قائم تھے۔
|