اس کتب خانے کی عمارت کو سنگ مرمر سے بنایا گیا تھا۔ سنگ مرمر ہی کا خوبصورت فرش تھا۔ جس پر سنگ سبز اور سنگ موسیٰ کی پچی کاری تھی۔ صندل آبنوس اور اسی قسم کی قیمتی لکڑیوں کی الماریاں تھیں ۔ ہر ایک الماری پر سنہرے حرفوں سے لکھا ہوا تھا کہ الماری میں کس علم و فن کی کتابیں ہیں ۔ اس دارالکتب میں ہزار ہا جلد ساز اور کاتب مصروف کار رہتے تھے۔ کتابوں کی تعداد چھ لاکھ کے قریب تھی۔
کتب خانہ کی فہرست:
فہرست کتب چوالیس جلدوں میں تھی۔ اس فہرست میں صرف کتاب اور مصنف کا نام درج تھا۔ ان کتابوں میں بہت ہی کم ایسی کتابیں ہوں گی جن کو خلیفہ حکم نے مطالعہ نہ کیا ہو۔ قریباً ہر ایک پر خلیفہ کے قلم سے لکھے ہوئے حواشی تھے۔ ہر ایک کتاب کے پہلے ورق پر خلیفہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا مصنف اور کتاب کا نام اور مصنف کا شجرہ نسب درج ہوتا تھا۔ خلیفہ حکم کی قوت حافظہ بہت زبردست تھی۔ ساتھ ہی وہ اعلیٰ درجہ کا ذہین و نقاد بھی تھا۔ ہر قسم کی نظم و نثر بلا تکلف لکھتا تھا۔
حکم کی تصنیف:
فن تاریخ سے اس خلیفہ کو بہت شوق تھا۔ اندلس کی ایک تاریخ اس خلیفہ نے خود لکھی تھی مگر وہ زمانہ کی دست برد سے ضائع ہو گئی۔ روئے زمین کے علماء خواہ وہ کسی قوم اور کسی مذہب اور کسی علم و فن سے تعلق رکھتے ہوں قرطبہ کی طرف کھنچ کھنچ کر چلے آئے تھے۔ غرض کہ خلیفہ حکم کے زمانے میں قرطبہ تمام علوم و فنون کا ایک ہی لانظیر مرکز تھا۔
مشاہیر علماء اور اہل کمال کی قدر دانیاں :
ابو علی قالی بغدادی مصنف کتاب الامالی عبدالرحمن ثالث کے عہد میں وارد اندلس ہوا تھا۔ سلطان حکم اس بے نظیر عالم کو ایک دم کے لیے اپنے پاس سے جدا نہ کرتا تھا۔ ابوبکر الارزق جو اپنے زمانے کا مشہور عالم اور سلمہ بن عبدالملک بن مروان کے خاندان سے تھا ۳۴۹ھ میں قرطبہ پہنچا اور ۵۸ سال کی عمر میں ماہ ذیقعدہ ۳۸۵ھ میں فوت ہو کر قرطبہ میں مدفون ہوا۔ خلیفہ حکم اس کی بڑی عزت کرتا تھا۔ اسمٰعیل بن عبدالرحمن بن علی جو ابن زمع کے خاندان سے تھا۔ قاہرہ سے اندلس آیا اور خلیفہ حکم کے علمائے دربار میں شامل ہوا۔ ثقر البغدادی اور قیاس بن عمر وغیرہ مشہور خوش نویس تھے جن کی خلیفہ حکم بڑی قدر کرتا تھا۔ ابو الفرح اصفہانی اور ابوبکر مالکی کے پاس ایک ایک ہزار دینار سرخ خلیفہ نے بھیجے۔ ابو عبداللہ محمد بن عبدون عذری دربار قرطبہ کا اعلیٰ درجہ کا طبیب تھا۔ محمد بن مفرج فقہ اور حدیث کا مشہور عالم تھا۔ ابن مغیث، احمد بن عبدالملک، ابن ہشام القوی، یوسف بن ہارون، ابو الولید یونس اور احمد بن سعید ہمدانی
|