نے اس کا استقبال کیا اور قصر سلطانی کے دروازے پر پہنچ کر سب نے سلطان بایزید ثانی کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ دربار عام میں ہماری درخواست سن لیں ۔ چنانچہ سلطان بایزید ثانی نے تخت پر بیٹھ کر دربار عام منعقد کیا، اراکین سلطنت، علماء و فقہاء، رعایا کے وکلاء فوج کے سردار سب نے مل کر عرض کیا کہ ہمارا سلطان اب بوڑھا ضعیف اور ناتوان ہو گیا ہے۔ ہم سب کی خواہش یہ ہے کہ سلطان اپنے بیٹے سلیم کے حق میں تخت سلطنت کو چھوڑ دے سلطان بایزید ثانی نے اس درخواست کو سنتے ہی بلاتامل فرمایا کہ میں نے تم سب کی خواہش کو منظور کر لیا اور میں سلیم کے حق میں تخت سے دست بردار ہوتا ہوں ، یہ کہہ کر تخت سے اتر آیا، سلیم نے فوراً آگے بڑھ کر باپ کے شانے کو بوسہ دیا، سلطان بایزید ثانی نے اس کو مناسب نصیحتیں کیں اور پالکی میں سوار ہو کر چلا۔ سلیم پالکی کا پایہ پکڑے ہوئے ساتھ ساتھ چلا سلطان بایزید ثانی اپنی خواہش کے موافق شہر ڈیموٹیکا میں رہنے اور قیام کرنے کے ارادے سے قسطنطنیہ کو چھوڑ کر روانہ ہوا کہ بقیہ ایام زندگی اسی شہر میں عبادت و خاموشی کی حالت میں گزار دے، سلیم شہر کے دروازے تک بطریق مشایعت پیدل آیا اور باپ سے رخصت ہو کر واپس ہوا اور تخت سلطنت پر جلوس کیا سلطان بایزید ثانی ابھی ڈیموٹیکا تک نہ پہنچا تھا کہ راستے ہی میں فوت ہو گیا، سلطان بایزید ثانی نے اپنی وفات کے وقت تین بیٹے اور نو پوتے چھوڑے، ان پوتوں میں سلیم کا اکلوتا بیٹا سلیمان بھی شامل تھا سلطان بایزید ثانی نے ۲۵ اپریل ۱۵۱۲ء مطابق ۹۱۰ھ میں تخت سلطنت کو چھوڑا اور ۲۹ اپریل ۱۵۱۲ء کو فوت ہوا سلطان سلیم ابن بایزید ثانی نے قسطنطنیہ میں تخت سلطنت پر جلوس کیا۔
سلطان سلیم عثمانی:
سلطان سلیم جب قسطنطنیہ میں فوج اور رعایا کی خوشی اور رضامندی سے تخت نشین ہوا تو اس کے دونوں بھائیوں کو جو ایشیائے کوچک میں برسر حکومت تھے مخالفت کی جرائت نہ ہوئی اور انہوں نے بظاہر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور سلیم کی اطاعت کا اقرار کیا مگر در پردہ مخالفت اور مقابلہ کی تیاری میں مصروف رہے۔ سلیم بھی ایسا بیوقوف نہ تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کے عزائم اور خیالات سے بے خبر رہتا، مگر اس نے خود ان کے خلاف کوئی جنگی کارروائی ابتداء نہیں کی، یہاں تک کہ احمد نے اماسیہ میں فوجیں فراہم کیں اور رعایا پر بڑے بڑے محصول لگا کر خزانہ فراہم کیا ادھر اس کے بیٹے علاء الدین نے بروصہ میں باپ کے ایما پر اسی قسم کی تیاری کر کے خود مختاری کا اعلان کیا۔ سلطان سلیم نے یہ خبریں سن کر ضروری سمجھا کہ خود ایشیائے کوچک میں جا کر اس بغاوت و سرکشی کا علاج کرے۔ چنانچہ وہ خود فوج لے کر ایشیائے کوچک میں آ بنائے باسفورس کو عبور کر کے داخل ہوا اور بعض جنگی جہاز سمندر کے کنارے کنارے روانہ
|