کیے۔ بروصہ کے قریب علاء الدین کو مغلوب و گرفتار کر کے بروصہ پر قبضہ اور علاء الدین اور اس کے بھائی کو قتل کیا۔ یہاں اور بھی شہزادے یعنی سلطان سلیم کے بھتیجے موجود تھے وہ بھی گرفتار ہو کر مقتول ہوئے۔ یہ خبر سنتے ہی احمد فوج لے کر مقابلہ پر آیا، اس لڑائی میں احمد سلیم سے شکست کھا کر فرار ہوا، احمد نے اس شکست کے بعد اپنے دو بیٹوں کو ایران کے بادشاہ اسمٰعیل صفوی کے پاس بھیج دیا کہ وہاں حفاظت سے رہ سکیں گے اور اور خود ایشیائے کوچک میں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتا پھرا۔ احمد اور اس کے بیٹے کا یہ انجام دیکھ کر بڑا بھائی قرقود بھی جو ایشیائے کوچک کے شمالی و مشرقی حصے پر حکمران تھا چوکس ہو گیا، سلطان سلیم نے تامل و تساہل کو ضروری نہ سمجھ کر دس ہزار سواروں کے ساتھ اچانک قرقود کے علاقے پر حملہ کیا۔ قرقود معمولی مقابلہ کے بعد گرفتار ہو گیا۔ سلطان سلیم نے اس تخت سلطنت کے دعوے دار کو زندہ رکھنا مناسب نہ سمجھ کر قتل کرا دیا، لیکن اس کو اپنے بھائی کے اس طرح مقتول ہونے کا سخت صدمہ ہوا کئی روز تک سوگوار رہا اور کھانا پینا ترک رکھا، عثمانی خاندان کے شہزادوں کا اس طرح قتل ہونا عام طور پر لوگوں کے جذبات ہمدردی کو بھڑکا سکتا تھا اسی لیے اس عرصہ میں احمد نے ایک جمعیت کثیر فراہم کر لینے میں کامیابی حاصل کی اور سلیم کے مقابلہ پر صف آرا ہو کر کئی مرتبہ اس کی فوج کو شکست بھی دی، لیکن سلیم اپنے بھائیوں کی طرح جلد ہمت ہارنے اور استقلال کا دامن چھوڑنے والا نہ تھا اس نے ایک طرف فوج کی بھرتی جاری کر دی اور دوسری طرف اپنے فوجی نظام کو مضبوط کرنے اور فتح حاصل کرنے کی تدبیر کو کام میں لانے کے لیے مصروف عمل رہا آخر نتیجہ یہ ہوا کہ احمد کو بھی مغلوب ہو کر گرفتار ہوناپڑا، یہ آخری لڑائی جس میں احمد ہزیمت پا کر گرفتار ہوا، سلیم کی تخت نشینی سے پورے ایک سال بعد یعنی ۲۴ اپریل ۱۵۱۳ء مطابق ۹۱۹ھ کو ہوئی احمد بھی گرفتار ہو کر قتل کیا گیا۔
سلطان سلیم کے عادات و اطوار اور طرز عمل سے یہ بات پورے طور پر ثابت ہو چکی تھی کہ وہ اپنے باپ سے زیادہ بہادر اور اپنے دادا کی طرح اولوالعزم اور بہادر شخص ہے عیسائی سلاطین بجائے خود خائف و ترساں تھے کہ دیکھئے یہ نیا سلطان ہمارے سر پر کیسی مصیبت لائے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ سلطان سلیم عیسائیوں کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اپنے ہم قوم مسلمانوں کی طرف زیادہ مصروف و متوجہ رہنا چاہتا ہے تو انہوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ صلح کے عہدناموں پر عمل در آمد جاری رکھا اور سلطان کی مغربی حدود سلطنت پر کسی قسم کی کشمکش پیدا نہ ہوئی، سلطان سلیم کو اپنے بھائیوں سے فارغ ہوتے ہی ایران کی سلطنت اور ایشیائے کوچک کے لوگوں سے الجھنا پڑا اور حقیقت یہ ہے سلطان سلیم اگر ایران کی سلطنت کے خلاف مستعدی کا اظہار نہ کرتا تو سلطنت عثمانیہ کے درہم برہم ہو جانے میں کوئی کسر باقی نہ
|