ہونے لگیں ۔ دونوں طرف کی خانہ جنگیوں سے سلطان محمد نے فائدہ اٹھایا۔ ایک طرف توقلعہ جبل الطارق پر قبضہ کر لیا دوسری طرف سلطنت قسطلہ کو خراج دینے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ واقعہ ۷۷۲ھ کا ہے۔ ۷۷۲ھ میں جب شاہ قسطلہ کے سفیروں کو کوئی خراج نہیں دیا گیا اور انکاری جواب کے ساتھ واپس لوٹایا گیا تو عیسائیوں سے بجز خاموش رہنے کے اور کچھ نہ ہو سکا۔ غرض اس سلطان کے عہد حکومت میں سلطنت غرناطہ کے رعب و وقار نے خوب ترقی کی اور عیسائی اس سے ڈرنے لگے۔
سلطان یوسف ثانی:
۷۹۳ھ میں سلطان محمد فوت ہوا اور اس کا بیٹا یوسف ثانی تخت نشین ہوا۔ یہ صلح پسند اور عقل مند شخص تھا۔ اس نے بادشاہ قسطلہ سے قیام صلح کے لیے عہد نامہ مکمل کیا۔ یوسف ثانی کے چار بیٹے یوسف، محمد، علی اور احمد تھے۔ ان میں محمد سب سے زیادہ چالاک اور ہوشیار تھا۔
سلطان محمد ہفتم:
۷۹۸ھ میں یوسف ثانی فوت ہوا تو محمد اپنے بڑے بھائی یوسف کو محروم کر کے خود تخت نشین ہو گیا۔ اس خاندان میں محمد نام کے بہت سے شخص ہوئے ہیں ۔ لہٰذا اس محمد بن یوسف ثانی کو محمد ہفتم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے محمد ہفتم کی تخت نشینی کے چند روز بعد عیسائیوں سے پھر چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی تھی اور مسلمانوں نے اس سلسلہ جنگ میں عیسائیوں کو شکستیں دے کر سلطنت قسطلہ کے بعض مقامات پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہیں ایام میں بادشاہ قسطلہ فوت ہوا۔ اور اس نے اپنا ایک شیر خوار بچہ جان نامی چھوڑا۔ اسی شیر خوار کو تخت سلطنت پر بٹھا کر اس کے چچا فرڈی نند نے مہمات سلطنت کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ فرڈی نند نے بھی سلسلہ جنگ کو جاری رکھا، چونکہ عیسائیوں کی فوج تعداد میں بہت زیادہ تھی۔ اس لیے محمد ہفتم نے عیسائی افواج کو محاذ جنگ پر مصروف رکھ کر اپنی فوج کے ایک حصے سے شہر جیان کی طرف حملہ کیا۔ اس ترکیب سے عیسائیوں کو اپنی افواج اس طرف منتقل کرنا پڑیں اور ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ فرڈی نند نے مجبور ہو کر درخواست صلح پیش کی جو محمد ہفتم نے منظور کر لی۔ اس طرح اس سلسلہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ ۸۰۳ھ میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے لشکروں میں پھر ایک جنگ برپا ہوئی اس لڑائی میں غالب و مغلوب کا کوئی اندازہ نہ ہو سکا۔ آخر عیسائیوں نے پھر صلح چاہی اور آٹھ مہینے کے لیے وقتی صلح ہو گئی ابھی مدت پوری نہ ہونے پائی تھی کہ سلطان محمد ہفتم نے بیمار ہو کر وفات پائی اور اس کا بھائی یوسف ثالث جو نظر بند تھا تخت نشین ہوا۔
|