دسواں باب:
حکومت بنی حمود
دولت ادریسیہ کا ذکر اوپر کسی باب میں آ چکا ہے کہ ہارون الرشید عباسی کے عہد خلافت میں ادریس کی مراکش میں خود مختار سلطنت قائم ہو گئی تھی۔ یہ حکومت ادریسیہ بھی اب مراکش سے زائل ہو چکی تھی۔ منصور اعظم یا ابن ابی عامر کے عہد وزارت و حکومت میں مراکش سے جو بربری لوگ اندلس میں آئے ان کے ہمراہ خاندان ادریسیہ کے دو شخص جو دونوں حقیقی بھائی تھے۔ آئے۔ ان دونوں کے نام علی اور قاسم تھے۔ یہ دونوں حمود بن میمون بن احمد بن علی بن عبیداللہ بن عمر بن ادریس کے بیٹے تھے، علی بن حمود اور قاسم بن حمود منصور اعظم کی فوج میں نوکر ہو گئے۔ انہوں نے ان لڑائیوں میں جو عیسائیوں کے ساتھ منصور بن ابی عامر کی ہوئیں خوب بہادری دکھائی اور اپنی قابلیت کا اظہار کیا۔ ابن ابی عامر نے خوش ہو کر ان دونوں کو فوجی افسری عطا کی۔ یہ دونوں بربری فوجوں کے اعلیٰ افسر تھے اور بربری لوگ بھی ان کی افسری سے خوش تھے، کیونکہ ان کا خاندان ایک عرصہ تک مراکش میں برسر حکومت رہ چکا تھا۔ یہی دونوں بھائی تھے جنہوں نے بربری فوج کو لے کر خاندان ابن ابی عامر کی بیخ کنی کی اور انہیں دونوں نے مستعین اموی کو خلیفہ بنایا مستعین نے قرطبہ میں تخت خلافت پر جلوس کرنے کے بعد علی بن حمود کو طنجہ اور دیگر صوبہ جات افریقہ کا والی مقرر کر دیا۔
علی بن حمود:
چونکہ مستعین کی چند روزہ حکومت میں اندلس کے تمام صوبے خود مختار ہو گئے۔ لہٰذا یہ رنگ دیکھ کر علی بن حمود نے بھی طنجہ میں خود مختارانہ حکومت شروع کر دی اور اپنے آپ کو مستعین کی فرما نبرداری سے آزاد کر لیا۔ خیران نامی والی المیرہ کو اپنا شریک کار بنا کر علی بن حمود نے جہازوں کے ذریعہ ساحل اندلس پر اپنی فوج اتار دی طنجہ میں اپنے بیٹے یحییٰ کو اپنا قائم مقام بنا آیا اور خود وارد اندلس ہو کر قرطبہ کی جانب مع فوج روانہ ہوا اور یہ مشہور کیا کہ میں خلیفہ ہشام کے خون کا بدلہ لینے آیا ہوں ۔ آخر مالقہ کے میدان میں مستعین نے قرطبہ سے روانہ ہو کر علی بن حمود کا مقابلہ کیا محرم ۴۰۷ھ میں مستعین کو شکست فاش حاصل ہوئی۔ علی نے بڑھ کر قرطبہ پر قبضہ کیا اور مستعین کو گرفتار کرا کر قتل کرایا اور خود تخت نشین ہو کر حکومت شروع کی، اپنا لقب ’’ناصر لدین اللہ‘‘ رکھا۔ چونکہ بربری فوج کا اثر غالب تھا اور بربری لوگ علی بن حمود سے خوش تھے
|