Maktaba Wahhabi

318 - 868
غرض خلافت بنو امیہ میں سادگی زیادہ تھی، شرعی قوانین سے تمام دقتوں کو دفع کر دیا جاتا تھا اور رعایا عدل و انصاف کی وجہ سے بہت خوش حال اور فارغ البال تھی، نہ رعایا سے کوئی نامناسب ٹیکس یا محصول لیا جاتا تھا نہ سلطنت کو انتظام ملک کے لیے زیادہ روپیہ خرچ کرنا پڑتا تھا، خلیفہ تمام اسلامی دینا کا روحانی پیشوا بھی سمجھا جاتا تھا اور دینوی شہنشاہ بھی، اس لیے ملک میں امن و امان کے قائم رکھنے میں بڑی آسانی ہوتی تھی، کوئی باقاعدہ وزارت کا عہدہ نہ تھا اور ضرورت کے وقت ہر شخص وزارت کے کام انجام دے سکتا تھا۔ خلافت عباسیہ میں عربوں کے سوا ایرانیوں اور ترکوں کو بھی فاتح قوم کے حقوق ملنے لگے اور بتدریج مفتوح قوم کا اقتدار عرب فاتحین سے بھی بڑھ گیا، اس لیے انتظام ملکی میں پیچدگی واقع ہوئی، اگر عرب، ایرانی اور ترک سب کو احکام اسلام کے موافق مساوی درجہ میں رکھا جاتا اور حقیقی مساوات قائم ہوتی تو بنو امیہ کے زمانے سے بھی زیادہ سادگی اور خوبی انتظام سلطنت میں نمایاں ہوتی، مگر بد قسمتی سے ایسی صورتیں پیش آتی رہیں کہ ان قوموں میں مخالفت اور رقابت ترقی کرتی رہی، جس کا بڑا سبب یہ تھا کہ ایرانیوں کو عربوں پر فضیلت دی گئی اور ایرانی و ساسانی معاشرت کو دربار خلافت نے اختیار کر کے عربی راحت رساں سادگی کو حقارت کے ساتھ رد کر دیا، اور اسی کا یہ نتیجہ ہوا کہ خلافت اسلامیہ کو ایسی پیچیدگیوں میں مبتلا ہونا پڑا جس سے اس کا اعتبار و اقتدار بتدریج کم ہوتے ہوتے فنا ہوگیا، بہر حال خلافت عباسیہ کے قابل تذکرہ عہدوں کی فہرست پیش کرنا مقصود ہے۔ وزیراعظم: ابتداء میں خلیفہ کا ایک ہی وزیر ہوتا تھا اور وہ ہر اعتبار سے خلیفہ کا نائب یا قائم مقام اور تمام صیغوں کا افسر ہوتا تھا، بعد میں جب یہ معلوم ہوا کہ ایک شخص محکموں کی پوری ذمہ داری نہیں لے سکتا تو وزیراعظم کے ماتحت الگ الگ صیغوں کے وزیر بھی مقرر ہونے لگے، وزیراعظم کو ابتدائی خلفاء کے عہد میں صرف وہی اختیارات حاصل ہوتے تھے جو خلیفہ تفویض کر دیتا تھا، بہت سے معاملات ایسے ہوتے تھے جن کو کرنے کا اختیار خلیفہ کے سوا کسی دوسرے کو نہ ہوتا تھا، ہاں وزیر اعظم خلیفہ کو مشورہ دے سکتا تھا، اس قسم کے مشورے لینے میں صرف وزیراعظم ہی نہیں بلکہ دوسرے اراکین سلطنت کو بھی خلیفہ تکلیف دیا کرتا تھا۔ بعض خلیفہ مثلاً ہارون الرشید نے اپنے وزیراعظم کو سلطنت کے ہر ایک معاملہ میں کلی اختیارات عطا کر دیئے تھے، وزیراعظم ہی ہر قسم کے احکام جاری کر دیتا اور خلیفہ کو اپنے جاری کردہ اہم احکام کی صرف اطلاع دیتا تھا، ایسے بااختیار وزیروں کا مرتبہ بہت ہی بلند ہوتا تھا اور وہ درحقیقت خلیفہ سے بھی
Flag Counter