سے نجات ملی۔
اس کے بعد اس نے کوئی کپڑا سینے کے لیے درزی کو بلوایا، سپاہی درزی کو بلا کر لائے تو درزی یہ سمجھا کہ اب مجھ کو گرفتار کیا جائے گا، اس نے ڈر کے مارے چھوٹتے ہی کہا کہ میرے پاس صندوقوں کے سوا کچھ اور نہیں ہے اور میں نے ابھی تک ان کو کھول کر بھی نہیں دیکھا ہے کہ ان میں کیا ہے، چنانچہ اس سے وہ صندوق منگوائے گئے تو ان میں سے اشرفیاں برآمد ہوئیں ، علی بن بویہ نے ان پر بھی قبضہ کیا۔
یہ تمام مال مظفر بن یاقوت کا جمع کیا ہوا تھا جو وہ اپنے ساتھ نہیں لے جا سکا تھا، اتفاق کی بات انہی ایام میں اس کو دولت صفاریہ کا جمع کیا ہوا خزانہ بھی مل گیا جس کی تعداد پانچ لاکھ دینار سرخ تھی۔
اسی اثناء میں علی بن بویہ ایک روز چلا جا رہا تھا کہ اس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے کھدوا کر دیکھا تو ایک بڑا خزانہ برآمد ہوا، اس طرح علی بن بویہ کے پاس بڑا خزانہ جمع ہو گیا اور اس نے صوبہ فارس پر کامیابی کے ساتھ حکومت شروع کر کے اپنی طاقت کو دم بدم ترقی دینی شروع کی اور مردادیح کا مد مقدبل بن کر اس کے لیے خوف و خطر کا باعث ہو گیا۔
راضی باللہ:
راضی باللہ بن مقتدر باللہ کا نام محمد اور کنیت ابو العباس تھی، ۲۹۷ھ میں ایک رومیہ ام ولد موسومہ ظلوم کے پیٹ سے پیدا ہوا، قاہر کے معزول ہونے کے بعد جمادی الثانی ۳۲۲ھ میں تخت خلافت پر بیٹھا، یہ جیل خانہ سے لا کر تخت پر بٹھایا گیا تھا، اس نے علی بن مقلہ کو وزیراعظم بنایا، محمد بن یاقوت کو گرفتار کر کے قید کر دیا، یاقوت ان دنوں واسط میں تھا، وہ فوج آراستہ کر کے علی بن بویہ کے مقابلہ پر گیا مگر شکست کھائی۔
اسی سال عبیداللہ مہدی مجوسی والی افریقہ پچیس سال سلطنت کرنے کے بعد فوت ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ابو القاسم بامر اللہ کے لقب سے تخت نشین ہوا۔
قتل مردادیح:
جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے مردادیح نے تمام صوبہ رے، اصفہان اور اہواز وغیرہ پر قابض و متصرف ہو کر دربار خلافت سے سند بھی حاصل کر لی تھی، مگر چند روز کے بعد اس نے بادشاہی کا دعویٰ کر کے سونے کا ایک تخت بنوایا، سپہ سالاروں اور سرداروں کے لیے چاندی کی کرسیاں تیار کرائیں ، کسریٰ کی طرح تاج مرصع سر پر رکھا اور شاہنشاہ کے لقب سے اپنے آپ کو ملقب کیا، پھر عراق و بغداد پر فوج کشی کی تیاری کی اور کہا کہ میں کسرائے فارس کے محلوں کو ازسر نو تعمیر کراؤں گا اور عربوں کی حکومت نیست و نابود کر
|