عبیدی کے فیصلے کو قابل تسلیم سمجھ کر افریقہ کو ایلچی روانہ کیے۔ ابوالقاسم عبیدی نے اپنا فیصلہ لکھ کر بھیجا کہ ابومنصور احمد کو بادشاہ تسلیم کیا جائے اور ابومنصور احمد کے بعد سابور بن ابوطاہر تخت نشین ہو گا۔ قرامطہ چونکہ اپنے آپ کو مہدی کا ایلچی اور طرفدار کہتے اور عبیداللہ مہدی کو اس کے دعوے کے موافق امام اسمٰعیل بن جعفر صادق کی اولاد میں سمجھ کر اس کی تکریم کرتے تھے۔ اس لیے عبیدیین قرامطہ کو اپنا دوست سمجھتے اور قرامطہ عبیدیین کی خلافت کو مانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ابوالقاسم کے فیصلے کو بخوشی تسلیم کر لیا اور احمد منصور قرامطہ کا بادشاہ بن گیا۔ اس کے بعد جب ۳۳۴ھ میں ابوالقاسم عبیدی فوت ہوا اور اس کی جگہ اسمٰعیل عبیدی افریقہ میں تخت نشین ہوا تو منصور احمد قرمطی نے مبارک باد اور اظہار عقیدت کے لیے ایلچی روانہ کیے۔ ۳۳۹ھ میں اسمٰعیل عبیدی نے قیروان سے بار بار ابومنصور کو لکھا کہ حجرا اسود خانہ کعبہ میں واپس بھیج دو تو ابومنصور احمد قرمطی نے حجرا سود کو خانہ کعبہ میں واپس بھیج دیا۔ ابو منصور کی حکومت میں بیرونی ملکوں پر قرامطہ کے حملے کم ہوئے اور اندرونی انتظامات میں وہ زیادہ مصروف رہا۔
سابور کا قتل:
۳۵۸ھ میں سابور بن ابو طاہر نے اپنے بھائیوں اور ہوا خواہوں کی مدد سے ابومنصور کو گرفتار کر کے قید کر دیا اور خود تخت نشین ہو گیا، مگر سابور کے بھائیوں نے سابور سے بھی مخالفت کی اور انہوں نے حملہ کر کے اپنے چچا ابو منصور کو جیل خانے سے نکال کر پھر تخت پر بٹھا دیا۔ ابومنصور نے تخت نشین ہو کر سابور کو قتل کیا اور اس کے ہوا خواہوں کو جزیرہ اوال کی طرف جلا وطن کر دیا۔ ۳۵۹ھ میں ابو منصور نے وفات پائی۔ ابومنصور کے بعد اس کا بیٹا ابو علی حسن بن احمد ملقب بہ ’’اعظم‘‘ تخت نشین ہوا۔ اس نے تخت نشین ہو کر ابوطاہر کے تمام لڑکوں کو جزیرہ اوال میں جلا وطن کر دیا۔
حسن اعظم قرمطی:
حسن اعظم قرمطی اپنے خیالات و عقائد میں بہت معتدل تھا۔ اس کو عبیدیین سے کوئی عقیدت نہ تھی اور خلافت عباسیہ سے کوئی نفرت یا عداوت نہ رکھتا تھا۔ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ابوطاہر نے دمشق پر خراج سالانہ مقرر کر دیا تھا اور جو شخص دمشق کا والی ہوتا تھا وہ خراج کی مقررہ رقم قرامطہ کے بادشاہ کی خدمت میں بھجواتا رہتا تھا تاکہ قرامطہ کی حملہ آوری اور قتل و غارت سے محفوظ رہے۔ اعظم کی تخت نشینی کے وقت دمشق کو جعفر بن فلاح کتامی نے بنی طغج سے فتح کر کے اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ اعظم نے حسب معمول والی دمشق سے خراج سالانہ طلب کیا۔ چونکہ اب تک قرامطہ اور عبیدیہ حکومتوں میں محبت و اتحاد قائم تھا لہٰذا توقع یہ ہو سکتی تھی کہ دمشق جب کہ دولت عبیدیہ میں شامل ہو گیا، تو بادشاہ قرامطہ دولت
|