عبیدیہ کے سردار جعفر بن فلاح سے دمشق کا خراج طلب نہ کرے گا۔ مگر اعظم نے سختی سے خراج کا مطالبہ کیا اور جعفر بن فلاح نے خراج کے دینے سے قطعی انکا کیا۔ چنانچہ اعظم نے دمشق کی جانب فوج بھیجی۔ ادھر معز عبیدی کو جو قیروان سے قاہرہ کی جانب آ رہا تھا یہ حال معلوم ہوا تو اس نے اراکین دولت قرامطہ کے نام خط بھیجا کہ تم اعظم کو سمجھاؤ کہ وہ دمشق سے متعرض نہ ہو۔ ورنہ پھر ہم ابوطاہر کی اولاد کو تخت سلطنت کا وراث قرار دے کر اعظم کی معزولی کا اعلان کر دیں گے۔ اعظم کو جب یہ حال معلوم ہوا تو اس نے بلا تامل عبیدیین کی خلافت سے انکار کر کے علم مخالفت بلند کیا اور اپنے ممالک مقبوضہ میں خلافت عباسیہ کا خطبہ پڑھوایا۔ پہلی فوج جو اعظم نے دمشق کی جانب روانہ کی تھی اس کو جعفر کتامی نے ۳۶۰ھ میں شکست دی۔ اس کے بعد ۳۶۱ھ میں اعظم خود فوج لے کر دمشق کی جانب متوجہ ہوا اور میدان جنگ میں جعفر کتامی کو قتل کر کے دمشق پر قبضہ کر لیا۔ اہل دمشق کو امان دے کر ہر قسم کا انتظام کیا اور فوج لے کر حدود مصر کی طرف بڑھا۔ آئندہ جو واقعات حدود مصر میں پیش آئے اور اعظم کی معز عبیدی سے جو خط و کتابت ہوئی اس کا حال اوپر معز عبیدی کے حالات میں بیان ہو چکا ہے۔ جس زمانے میں اعظم قرمطی شام و مصر کی طرف مصروف تھا اس زمانے میں معز عبیدی نے خطوط بھیج کر ابو طاہر کے بیٹوں کو جو جزیرہ اوال میں نظر بند تھے ترغیب دی کہ تم اس وقت بحرین میں آکر احساء پر قبضہ کر لو اور خود بادشاہ بن جاؤ اور ایک اعلان اپنی طرف سے ملک بحرین میں شائع کرا دیا کہ ہم نے اعظم کو معزول کر کے ابو طاہر کے بیٹوں کو بحرین کی حکومت عطا کر دی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابوطاہر کے بیٹوں نے آکر احساء کو تاخت و تاراج کر ڈالا۔ یہ حال دیکھ کر بغداد کے خلیفہ طائع عباسی نے ابو طاہر کے بیٹوں کو خط لکھا کہ تم آپس میں فتنہ و فساد برپا نہ کرو اور ہمارے احکام کی تعمیل کرو اور اس بغاوت سے باز رہو۔ مگر اس کا کوئی اثر ان پر نہ ہوا آخر اعظم نے احساء کی طرف واپس آکر سب کو درست کیا اور خلیفہ طائع عباسی کے فرستادوں نے آکر ان میں مصالحت کرا دی۔ ۳۶۳ھ میں معز عبیدی کی فوجوں نے تمام ملک شام پر قبضہ کر لیا۔ اعظم قرمطی فوجیں مرتب کر کے ملک شام کی طرف آیا۔ تمام ملک شام سے عبیدی فوجوں کو شکست دے دے کر بھگا دیا اور مصر پر حملہ آور ہو کر بلبیس تک پہنچ گیا۔ معز عبیدی نے اعظم قرمطی کی فوج کے ایک بڑے حصے اور بعض عرب سرداروں کو لالچ دے کر اپنی طرف مائل کر لیا۔ اس لیے حسن اعظم کو شکست ہوئی اور وہ احساء کی طرف واپس چلا آیا اور شام پر عرب سرداروں کا قبصہ ہو گیا۔ دمشق پر بعض ترکی سردار قبضہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ معز عبیدی ۳۶۵ھ میں خود دمشق کی طرف روانہ ہوا۔ اتفاقاً راستے ہی میں فوت ہو گیا۔ اعظم قرمطی نے ۳۶۶ھ میں حملہ کر کے ملک شام کو پھر فتح کر لیا۔ اس حملہ میں افتگین نامی ترکی
|