سفر کے لیے سہولتیں :
خلفائے عباسیہ نے عراق، حجاز، فارس، خراسان، موصل اور شام وغیرہ میں راستوں کی حفاظت و نگرانی اور مسافروں کے امن و امان سے گزر جانے کے لیے معقول انتظام کیے تھے، فوجی دستے متعین تھے، جابجا تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر چوکیاں قائم تھیں ، ہر ایک منزل پر شاہی گھوڑے، اونٹ اور دوسری سواریاں موجود رہتی تھیں ، ایک مکان ہر منزل پر مسافروں کے ٹھہرنے اور آرام کرنے کے لیے ہوتا تھا، شاہی سواریوں پر جو محکمہ ڈاک کے ماتحت ہوتی تھیں کرایہ دے کر عام لوگ بھی سفر کے سکتے تھے، کبھی کبھی اگر کسی زبردست ڈاکو یا باغی کی وجہ سے راستے مخدوش ہو جاتے تو تجارتی قافلوں کے ساتھ شاہی فوج بھیجی جاتی تھی، اور حاجیوں کے قافلوں کے ساتھ جو شخص امیر حج ہو کر جاتا اس کے ساتھ ایک فوج بھی ہوتی تھی اور وہ حاجیوں کی حفاظت کرتا تھا۔
تجارت کے لیے سہولتیں :
ہر ایک شہر میں سوداگروں کی ایک انجمن ہوتی تھی جس میں کسی سرکاری آدمی کا شامل ہونا ضروری نہ تھا، سوداگر لوگ خود اشیاء کے نرخ قائم کرتے تھے، تجارتی مال پر چنگی بہت ہی کم لی جاتی تھی اور اس معاملہ میں تاجروں کو کبھی کوئی شکایت پیدا نہ ہوتی تھی، تاجروں کی عزت شاہی اہل کاروں سے زیادہ ہوتی تھی، تاجروں کو عموماً شاہی درباروں میں باریاب ہونے کا موقع دیا جاتا تھا، جو سوداگر باہر سے مال لاکر فروخت کرتے تھے ان کو شہر کا حاکم خوش کر کے واپس کرنے کی کوشش کرتا تھا، گویا ہر ایک تاجر جو باہر سے مال لے کر آیا ہے اس نے اس شہر کے حاکم پر ایک احسان کیا ہے، اگر تاجر کا مال فروخت نہیں ہوا ہے تو حاکم شہر یا سلطان یا خلیفہ بلا ضرورت بھی اس کے مال کو خرید لیتا اور سوداگر کو افسردہ خاطر واپس کرنا نہیں چاہتا تھا۔
جس عامل یا جس حاکم کی حدود حکومت میں تاجروں کا کوئی قافلہ لٹ جائے وہ انتہا درجہ کا غافل اور نالائق سمجھا جاتا تھا، تاجروں کو امرائے شہر اپنے یہاں مدعو کرتے اور عالی جاہ مہمان کی حیثیت سے اس کی مدارات بجا لاتے تھے، اگر کوئی سوداگر کسی دوسرے ملک سے آیا ہے تو اس کے حالات سفر سننے کے لیے خلفاء خود اس کی ضیافت کرتے اور انعام و اکرام سے مالا مال کر کے واپس کرتے تھے، چنانچہ اس طرز عمل نے تجارت کو خوب فروغ دے دیا تھا، یہی وجہ تھی کہ خلفائے عباسیہ کے زمانے میں ہر قسم کی صنعت و حرفت میں خوب ترقی ہوئی اور ہر ایک شہر کسی نہ کسی صنعت کے لیے مشہور ہو گیا، اسی طرح ایک جگہ کی پیداوار دوسری جگہ جانے لگی۔
|