حکومت میں سلجوقیوں نے اپنے قدیمی مسکن، یعنی مغربی چین کے پہاڑوں سے نکل کر بخارا کے میدانوں میں سکونت اختیار کی اور پھر بتدریج ایشیائے کوچک تک پھیل گئے، سلطان محمود غزنوی نے ماوراء النہر کا علاقہ بھی فتح کر لیا تھا، اس خاندان کی تاریخ مفصل طور پر تاریخ ہند میں درج کی جائے گی۔
دولت سلجوقیہ:
سلجوقیوں کی حکومت ۴۳۰ھ سے ۷۰۰ھ تک کم و بیش ڈھائی سو سال قائم رہی، ابتدائی زمانہ ان کا بڑا شاندار تھا، آخر میں ان کے بہت سے ٹکڑے ہو گئے اور شروع ہی سے ان کے کئی طبقات قائم ہوچکے تھے، ان کا سب سے بڑا سلسلہ وہ تھا، جس میں الپ ارسلان اور ملک شاہ سلجوقی جیسے مشہور آفاق سلاطین ہوئے، ان کو سلاجقہ ایران کہتے ہیں ، ان کا کسی قدر حال اوپر بھی بیان ہو چکا ہے اور آئندہ مفصل بیان کیا جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ، ان کے علاوہ سلاجقہ کرمان، سلاجفہ عراق، سلاجقہ شام، سالاجقہ روم وغیرہ بھی مشہور ہیں ، ان سب خاندانوں کی تاریخ دلچسپی سے خالی نہیں ، پھر ان سلجوقیوں کے غلاموں اور اتابکوں کی سلطنتیں قائم ہوئیں ، وہ بھی بہت مشہور اور اسلامی تاریخ کی زینت کہی جاسکتی ہیں ۔
سلجوقیوں کا ظہور ایسے وقت میں ہوا جب کہ دیلمیوں کی چیرہ دستی نے خلافت بغداد کو سلطنت بے عزت اور کمزور کر دیا تھا، سلطنت اسلامیہ کے لوگوں نے تکے بوٹی کر لیے تھے، اور جدا جدا خود مختار ریاستیں اور بڑی بڑی بادشاہتیں قائم ہو چکی تھیں جیسا کہ اسی فصل میں اوپر بیان ہوتا چلا آتا ہے، سلجوقیوں نے خلافت عباسیہ کے مٹے ہوئے اقتدار کو پھر چمکایا اور بہت سے چھوٹے چھوٹے خاندانوں کو حکومت و فرماں روائی کی کرسی سے جدا کر کے ایک عظیم الشان اور طاقتور سلطنت میں خلیفہ کی بزرگی اور وقار کو قائم کیا، مگر چونکہ سلجوقیوں کی طاقت تمام تر فوجی اور جنگی اجزاء سے مرکب تھی اور سپہ سالاران افواج ہی کو انہوں نے ملکی انتظام اور ملک داری کا کام سپرد کر دیا تھا، لہٰذا چند روز کے بعد اس طاقت کا شیرازہ بکھر گیا اور تمام سلجوقی سردار الگ الگ صوبوں اور ولاتیوں پر خود مختارانہ قابض ہو کر اسی گزشتہ طائف الملوکی کو پھر واپس لانے کا موجب ہوئے۔
سلجوقی لوگ نو مسلم تھے مگر ان میں خلوص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، وہ علوی سازشوں ، سبائی ریشہ دوانیوں سے بالکل پاک تھے، انہوں نے دین اسلام کی خدمت کے موقعے خوب پائے، جہاں تک ان کے امکان میں تھا انہوں نے مذہبی علوم اور نیک لوگوں کی خوب خدمتیں کیں ، وہ خلفائے عباسیہ کی تکریم محض اس لیے کرتے تھے کہ ان کو پرانی اسلامی روایات کے موافق مستحق تکریم جانتے تھے، لیکن وہ عباسیوں ، امویوں اور علویوں کی رقابتوں سے مطلق متاثر نہیں ہوئے، نہ ان کو کسی ایک فریق سے
|