عداوت تھی، نہ دوسرے سے بے جا محبت، وہ سیدھے سادے اور سچے پکے مسلمان تھے، انہوں نے عیسائیوں کے خوب مقابلے کیے اور ان کے دلوں پر مسلمانوں کی شمشیر خارا شگاف کی و ہشت دہیبت پھر قائم کر دی اور عیسائیوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو ایسا دھکا دیا کہ وہ دور تک پیچھے ہٹ گیا، سلجوقیوں ہی کی حکومت کا نتیجہ تھا کہ خلفائے عباسیہ کی حکومت صوبہ عراق پر آخر تک قائم رہی۔
ان کے زوال کا سبب وہی چیز تھی جو ہر ایک قوم کے زوال کا سبب ہوا کرتی ہے، یعنی آپس کی نااتفاقی اور ایک دوسرے سے دست و گربیان ہونا۔ سلجوقیوں کی طاقت جیسا کہ بیان ہوا ایک جنگی طاقت تھی، فوج جس پر اس طاقت کا دار و مدار تھا، اس کے افسر ترکی غلام ہوتے تھے، جو دشت قبچاق سے منگوا کر خریدے جاتے تھے، ان زرخرید غلاموں پر سلاطین سلجوقیہ کا سب سے زیادہ اعتماد تھا، ان کی وفاداری میں ان کو مطلق شبہ نہ تھا، اسی لیے فوجوں کی افسری ان غلاموں کو دی جاتی، اور انہی کو صوبوں اور ولاتیوں کی حکومت سپرد ہوتی، یہ غلام شائستہ ہو کر جب سرداری کے مرتبے پر پہنچتے تو بڑے وفادار اور بہادر ثابت ہوتے تھے، سلاطین سلجوقیہ اپنے نو عمر اور کم سن شہزادوں کی اتالیقی پر انہیں مملوک سرداروں کو مامور کرتے اور انہی غلاموں کی نگرانی و اتالیقی میں سلجوقی شہزادوں کی ادب آموزی ہوتی، اس لیے ان مملوکوں یعنی ترک غلاموں کو اتابک (اتالیق) کے نام سے پکارنے لگے، اتابک کے معنیٰ ترکی زبان میں ایسے سردار کے ہیں ۔
جب سلاطین سلجوقیہ آپس میں لڑ لڑ کر کمزور ہو گئے تو ان مملوکوں یعنی اتابکوں نے موقع پا کر اپنی مستقل حکومتیں جابجا قائم کر لیں ، طفتگین جو سلجوق تتش کا مملوک تھا، وہ تتش کے نو عمر بیٹے وفاق سلجوقی کا اتابک مقرر ہوا اور وفاق کے بعد تتش سلجوقی کی سلطنت کا مالک ہو گیا اور دمشق میں حکومت کرنے لگا۔
عماد الدین زنگی سلطان ملک شاہ سلجوقی کے مملوک کا بیٹا تھا، اس نے موصل اور حلب میں اتابکی سلطنت قائم کی۔ عراق کے سلجوقی سلطان مسعود کا ایک قبچاقی غلام تھا، اس نے آذربائیجان میں اتابکی سلطنت قائم کی۔
سلطان ملک شاہ سلجوقی کا ثانی کا انوشتگین نامی ایک مملوک تھا، اس کی اولاد میں شاہان خوارزم شاہیہ تھے۔
اسی طرح سلغر ایک تابک سردار تھا، جس نے فارس میں اتابکی سلطنت قائم کی۔
غرض چھٹی صدی ہجری میں تمام سلجوقی سلطنت پر سلجوقیوں کے افسران فوج قابض و متصرف ہوکر اپنی اپنی مستقل بادشاہتیں قائم کر چکے تھے۔
|