عنبسہ بن سحیم کلبی :
عنبسہ نے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہی نہایت قابلیت کے ساتھ ملک کا انتظام کیا اور رعایا کو انواع و اقسام کے فائدے پہنچائے، امیر عنبسہ کے ابتدائی عہد حکومت میں بلائی نامی ایک عیسائی نے جس کو انگریزی میں پلیو کہتے ہیں ایک پہاڑی علاقہ میں بغاوت کی اور بہت سے عیسائیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا، یہ سن کر اسلامی لشکر نے اس طرف توجہ کی اور تمام عیسائیوں کو قتل و گرفتار کر کے اس فتنے کو فرو کر دیا، پلیو فرار ہو کر تیس آدمیوں کے ساتھ پہاڑوں میں جا چھپا، مسلمانوں نے ان تیس آدمیوں کی قلیل جماعت کو بے حقیقت سمجھ کر کوئی التفات نہ کیا، اگر مسلمان چاہتے تو ان کا تعاقب کر کے جہاں کہیں بھی وہ جاتے گرفتار کر کے قتل کر دیتے، مگر انہوں نے ان کے استیصال کو مطلق ضروری نہ سمجھا، یہ تیس آدمی لوٹ مار پر آمادہ رہ کر پہاڑوں میں سکونت رکھتے اور ڈاکہ زنی سے بعض مواضعات کو نقصان پہنچاتے، مسلمانوں نے چونکہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں کی اور نہ کبھی کوئی دستہ فوج ان کے استیصال پر مامور ہوا، اس لیے یہ آئندہ زمانے میں اپنے اس جتھے کو مضبوط کرتے گئے اور عیسائی آ آکر ان میں شریک ہوتے گئے اس طرح اندلس میں ایک عیسائی ریاست کی بنیاد قائم ہوئی جس کا ذکر آگے ان شاء اللہ آئے گا۔
جنوبی فرانس کی فتح :
امیر عنبسہ نے ملک کے انتظام سے فارغ ہو کر ملک فرانس پر چڑھائی کی، علاقۂ ناربون مسلمانوں کے قبضہ میں موجود تھا اس لیے جبل البرتات سے گزرنے میں کوئی وقت پیش نہ آئی، امیر عنبسہ نے تمام جنوبی فرانس کو فتح کر لیا اور فرانس کے وسط میں پہنچ کر مشرق و مغرب کی جانب فوجیں پھیلا دیں اس وقت مال غنیمت کی کثرت سے مسلمان بہت بوجھل ہو گئے تھے، فرانسیسیوں نے اپنی تمام فوجوں کو فراہم کر کے اپنے نصف سے زیادہ ملک کی پامالی کا تماشا دیکھا، آخر ایک مناسب اور موزوں وقت و مقام پر انہوں نے اپنی پوری طاقت سے اسلامی لشکر کا مقابلہ کیا، اس مرتبہ بھی مسلمانوں نے اپنی انتہائی بہادری کا ثبوت دیا اور فرانسیسیوں کے دانت کھٹے کر دیے۔
امیر عنبسہ کی شہادت :
امیر عنبسہ نے بداحتیاطی سے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا، یعنی صف قتال میں سب سے آگے بڑھ کر عیسائیوں پر بذات خود حملہ کیا اور عیسائی صفوف کو چیرتے ہوئے اندر گھس کر جام شہادت نوش کیا۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ طولوز کی طرح اس مرتبہ بھی مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا، امیر عنبسہ نے اپنی شہادت سے پہلے ہی عروہ بن عبداللہ فہری کو اپنا قائم مقام تجویز کر دیا تھا، لہٰذا جس طرح امیر سمح کی
|