دعوت دی گئی۔ چنانچہ جلال الدولہ وارد بغداد ہوا اور حکومت کرنے لگا اس کا نام خطبوں میں داخل ہوا۔ ۴۱۸ھ میں جلال الدولہ نے حکم دیا کہ نماز پنج وقتہ میں نقارہ بجایا جائے، خلیفہ قادر باللہ نے اس کو بدعت ہونے کی وجہ سے سخت ناپسند کیا اور اس حکم کے واپس لینے کی تاکید جلال الدولہ کو کی۔ جلال الدولہ نے اپنا یہ حکم منسوخ تو کر دیا مگر خلیفہ سے بہت کبیدہ خاطر ہو گیا، چند روز کے بعد پھر خلیفہ نے اجازت دے دی اور جلال الدولہ نے نقارہ بجنے کا حکم جاری کر دیا۔
۴۱۹ھ میں ترکوں میں نے جلال الدولہ کے خلاف بغاوت کی مگر خلیفہ قادر باللہ نے درمیان میں پڑ کر مصالحت کرا دی، اس کے بعد ابو کالیجار نے عراق پر حملہ کیا، جلال الدولہ نے اس کے مقابلہ پر فوجیں روانہ کیں ، اس طرح لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا، دونوں ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ ابھی سلسلہ جنگ ختم نہ ہونے پایا تھا کہ خلیفہ قادر باللہ نے ۴۳۲ھ میں انتقال کیا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ابو جعفر عبداللہ قائم بامر اللہ کے لقب سے تخت خلافت پر بیٹھا، شیخ تقی الدین صلاح نے قادر باللہ کو فقہائے شافعیہ میں شمار کیا ہے۔
قائم بامر اللہ :
ابو جعفر عبداللہ قائم بامر اللہ بن قادر باللہ ۱۵ ذیقعدہ ۳۹۱ھ میں ایک ارمنی ام ولد موسومہ بدر الدجیٰ کے بطن سے پیدا ہوا تھا، خوب صورت، عابد، زاہد، ادیب، خوش خط، سخی، صدقہ دینے والا، احسان کرنے والا شخص تھا، جلال الدولہ کے قوائے حکمرانی خود کمزور ہو گئے تھے، اس کی فوج میں آئے دن بغاوت برپا رہتی تھی، ۴۲۵ھ میں جلال الدولہ نے خود بغداد کے محلہ کرخ میں اقامت اختیار کی اور ارسلان ترکی المعروف بہ بساسیری کو بغداد کے حصہ غربی پر مامور کیا، بساسیری نے غلبہ و تسلط حاصل کر کے اہل بغداد کو بہت ستایا اور خلیفہ کو بھی تنگ رکھا اور انواع و اقسام کی گستاخیاں کر کے خلیفہ کو بالکل بے دست وپا اور مثل قیدی کے بنا دیا۔ شیعہ سنیوں میں فسادات برپا ہوئے، بساسیری بھی چونکہ شیعوں کا حامی تھا، اس لیے سنیوں کو بڑے بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ ۴۲۷ھ میں فوج نے بغاوت کی اور جلال الدولہ کے مکان کا محاصرہ کر کے لوٹ لیا، جلال الدولہ تکریت چلا گیا، خلیفہ قائم بامر اللہ نے بیچ میں پڑ کر فوج کے ترکوں اور جلال الدولہ میں مصالحت کرا دی، ۴۲۸ھ میں جلال الدولہ اور اس کے بھتیجے ابو کالیجار میں مصالحت ہو گئی اور ایک دوسرے نے اتحاد و اتفاق کے قائم رکھنے کی قسمیں کھائیں ۔ ۴۲۹ھ میں جلال الدولہ نے خلیفہ قائم بامر اللہ سے درخواست کی کہ مجھ کو ’’ملک الملوک‘‘ کا خطاب دیا جائے، خلیفہ نے علماء و فقہاء سے اس خطاب کے جواز کی نسبت استفتاء کیا، بعض نے جواز کا فتویٰ دیا،
|