میں آکر اور باغیوں کا سردار بن کر قصر الحمراء پر قابض ہو گیا اور محمد ہشتم کو تیسری مرتبہ تخت سے اتار کر قید کر دیا۔ امیر عبدالبر سپہ سالار نے غرناطہ سے بھاگ کر ہوا خواہوں کو جمع کیا اور سلطان محمد ہشتم کی رہائی کی تدبیریں کرنے لگا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں سلطان محمد ہشتم کی رہائی کے مطالبہ کا اعلان کروں گا تو ممکن ہے کہ ابن عثمان جو غرناطہ میں تخت نشین ہو چکا ہے محمد ہشتم کو قتل کر دے۔ لہٰذا اس نے محمد ہشتم کے دوسرے بھتیجے ابن اسماعیل کو اپنا شریک کار بنانے اور سلطنت کا دعویٰ کرنے کی ترغیب دی۔ ابن اسماعیل فوراً رضا مند ہو گیا اور بادشاہ قسطلہ سے خط و کتابت کرنے اور اجازت لینے کے بعد عبدالبر سے آ ملا۔ عیسائیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا۔ ایک طرف ابن اسماعیل نے اور دوسری طرف شاہ قسطلہ نے سلطان ابن عثمان کی حدود پر فوج کشی شروع کی۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز تک جاری رہا۔ ۸۵۲ھ میں شاہ ارغون اور شاہ اربونیہ (دونوں عیسائی تھے) نے شاہ قسطلہ کے خلاف فوج کشی کی۔ اس طرح شاہ قسطلہ اپنی مصیبت میں گرفتار ہوا اور مسلمانوں کی طرف سے فوجیں ہٹا لیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابن اسماعیل بھی اپنے حلیف شاہ قسطلہ کے خانہ جنگی سے فارغ ہونے تک خاموش رہا۔ سلطان ابن عثمان کو جب یہ معلوم ہوا کہ شاہ ارغون اور شاہ اربونیہ سلطنت قسطلہ کے خلاف متحد ہو گئے ہیں تو اس نے اپنے سفیر ان دونوں عیسائی بادشاہوں کے پاس بھجوا کر ان سے دوستانہ تعلقات پیدا کیے اور وعدہ کیا کہ جب تم قسطلہ پر حملہ آور ہو گئے تو میں بھی تمہارے مقصد کی کامیابی کے لیے ادھر سے حملہ کروں گا۔ چنانچہ ۸۵۴ھ میں سلطان ابن عثمان نے قسطلہ کی سلطنت پر حملہ کیا اور صوبہ مرسیہ کو تاخت و تاراج کرتا ہوا اور قسطلہ کی فوجوں کو دور تک بھگاتا ہوا بہت سے مال غنیمت کے ساتھ غرناطہ واپس آیا۔ اگلے سال سلطان ابن عثمان نے صوبہ اندلوسیہ پر حملہ کیا اور مرسیہ کی طرح اس صوبہ کو بھی خوب تباہ و برباد کرتا رہا۔ اگر سلطان ابن عثمان چاہتا تو قرطبہ پر قبضہ کر سکتا تھا، مگر اس نے قرطبہ کی طرف التفات نہ کیا۔ ۸۵۸ھ تک اربونیہ و ارغون کی مخالفت سلطنت قسطلہ سے جاری رہی اور ابن عثمان بھی ان دنوں اول الذ کر عیسائی سلطنتوں کی امداد کرتا رہا۔ شاہ قسطلہ کی صلح ہو گئی تو اس نے ابن اسماعیل کو جو ان ایام میں سرحد قسطلہ پر خاموش و منتظر تھا فوج دے کر ۸۹۵ھ میں ابن عثمان پر حملہ آور کرایا۔ ابن اسماعیل کو چونکہ اکثر مسلمان امراء کی ہمدردی حاصل تھی۔ اس لیے اس کے مقابلے میں ابن عثمان کو شکست ہوئی وہ مع چند ہمراہیوں کے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ گزیں ہوا اور ابن اسماعیل غرناطہ میں آکر تخت نشین ہوا۔
سلطان ابن اسماعیل:
ابن اسماعیل کی تخت نشینی کے چند ہی روز بعد شاہ قسطلہ مسمی جان کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا تخت
|