ہوئی ہے۔
ایک دوسرا شخص کہتا تھا کہ مجھ میں جبرئیل علیہ السلام کی روح ہے، دعوؤں کو سن کر لوگوں نے ان کو مارا پیٹا، معز الدولہ نے بوجہ شیعہ ہونے کے لوگوں کو ایذار سانی سے باز رکھ کر ان کا ادب کرنے اور تعظیم سے پیش آنے کا حکم دیا، کیونکہ کہ وہ اپنے آپ کو اہل بیت سے نسبت کرتے تھے۔
۳۴۶ھ میں رے اور نواح رے میں زلزلہ عظیم آیا، طالقان خسف ہو گیا کل تیس آدمی بچ سکے باقی سب ہلاک ہو گئے۔ رے کے نواح میں ڈیڑھ سو گاؤں زمین میں دھنس گئے، شہر خلوان کا اکثر حصہ زمین میں غرق ہو گیا۔
۳۴۷ھ میں دوبارہ اسی شدت کا زلزلہ آیا۔
اسی سال معز الدولہ نے موصل پر چڑھائی کی کیونکہ ناصر الدولہ سے خراج بھیجنے میں تاخیر ہوئی تھی، ماہ جمادی الاول ۳۴۷ھ میں موصل پر قبضہ کیا۔
ناصر الدولہ نصیبین چلا گیا، معز الدولہ نے موصل میں سبکتگین اپنے حاجب کبیر کو چھوڑ کر خود نصیبین کا قصد کیا، ناصر الدولہ وہاں سے اپنے بھائی سیف الدولہ کے پاس حلب چلا گیا۔ سیف الدولہ نے معز الدولہ سے خط و کتابت کر کے صلح کی کوشش کی اور ماہ محرم ۳۴۸ھ میں صلح نامہ لکھا گیا۔ اور معز الدولہ عراق کی جانب واپس آیا۔
۳۵۰ھ میں معز الدولہ نے بعذاد میں اپنے لیے ایک بہت بڑا قصر تعمیر کرایا جس کی نبیا دیں چھتیس گزر کھی گئی تھیں ۔
اسی سال رومیوں نے جزیرہ افریطش (کریٹ) کو مسلمانوں کے قبضے سے چھین لیا، یہ جزیرہ ۲۳۰ھ سے مسلمانوں کے قبضے میں چلا آتا تھا۔
معز الدولہ کی ایک اور لعنتی کاروائی:
۳۵۱ھ میں معز الدولہ نے جامع مسجد بغداد کے دردازے پر نعوذ باللہ نقل کفر کفر نباشد یہ عبارت لکھوا دی ’’لعن اللَّہ معاویۃ بن ابی سفیان و من غصب فاطمۃ فدکا و من صلح عن دفن الحسن عند جدہ و من نفی اباذر و من اخرج العباس عن الشوری۔‘‘
عید غدیر کی ایجاد:
معز الدولہ نے ۱۸ ذی الحجہ ۳۵۱ھ کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا اور اس عید کا نام عید خم غدیر رکھا، خوب ڈھول بجائے گئے اور خوشیاں منائی گئیں ، اسی تاریخ کو یعنی ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ھ کو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ
|