عبدالرحمن کی خدمت میں لا کر پیش کیا پھر انعام وصول کر کے چل دیا اسی طرح ۱۶۲ھ میں عبدالرحمن بن حبیب کے مارے جانے پر اس مہم کا خاتمہ ہو گیا اور امیر عبدالرحمن اطمینان سے اپنے دار السلطنت قرطبہ کی طرف واپس آیا۔
چند ہی روز کے بعد ۱۶۲ھ میں دحیہ غسانی نے علاقہ البیرہ کے قلعہ میں جا گزین ہو کر علم بغاوت بلند کیا، امیر عبدالرحمن نے شہید بن عیسی کو اس کی سر کوبی پر مامور کیا، شہید بن عیسی نے اس باغی سردار کو شکست دے کر قتل کر ڈالا، اس کے چند روز کے بعد بربریوں نے سر اٹھایا اور ابراہیم بن شجرہ کی سر کردگی میں علم بغاوت بلند کیا، امیر عبدالرحمن نے ابراہیم بن شجرہ کی سر کوبی پر بدر کو مامور کیا، بدر نے ابراہیم کو قتل کر کے بربریوں کی جمعیت کو منتشر کر دیا انہی دنوں سلمیٰ نامی ایک سپہ سالار نے قرطبہ سے فرار ہو کر طلیطلہ کا رخ کیا اور طلیطلہ پر قبضہ کر کے علم بغاوت بلند کیا، امیر عبدالرحمن نے حبیب بن عبدالملک کو سلمیٰ کی سرکوبی پر مامور فرمایا، حبیب لے جا کر طلیطلہ کا محاصرہ کر لیا اور عرصہ دراز تک یہ محاصرہ جاری رہا، آخر سلمیٰ کا بحالت محاصرہ انتقال ہو گیا اور اس کے ہمراہی منتشر ہو گئے۔
بغاوتوں کے اسباب:
اندلس کی ان پیہم اور مسلسل بغاوتوں کا کوئی خالص سبب ہم کو ضرور تلاش کرنا چاہیے، جنہوں نے امیر عبدالرحمن کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا، اس میں شک نہیں کہ اندلس میں کچھ اسی قسم کے لوگ جمع ہو گئے تھے اور اندلس کی تمام اسلامی آبادی کا مزاج کچھ ایسا واقع ہوا تھا کہ وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے رقیب تھے اور ساتھ ہی کسی کی زیر حکومت نہیں رہنا چاہتے تھے، موجودہ حاکم چونکہ ایک غریب الوطن شخص تھا، جس کے خاندان کی حکومت و عظمت مشرق میں تباہ ہو چکی تھی لہٰذا وہ امیر عبدالرحمن کی حکومت کو بھی دیر تک رکھنے کے خلاف تھے، یہ تو وہ اسباب ہیں جن کا اس سے پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے اور بالکل پیش پا افتادہ ہیں ، لیکن ان کے سوا ایک اور خاص سبب بھی ہے، اور درحقیقت عبدالرحمن کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا اصلی سبب وہی ہے۔ عباسی خلفاء جنہوں نے بغداد کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا تھا امیر عبدالرحمن سے بہت فاصلے پر تھے، ان کی حدود حکومت اور ملک اندلس کے درمیان سمندر حائل تھا وہ عبدالرحمن کی حکومت اور طاقت کے حالات سنتے تھے لیکن دور دراز فاصلے پر اس کا کچھ بگاڑ نہ سکتے تھے، عباسیوں نے دو مرتبہ فوج کشی کی اور دونوں مرتبہ ان کے سپہ سالاروں کو موت کے گھاٹ اترنا اور عباسی مہم کو ذلت کے ساتھ ناکامیاب رہنا نصیب ہوا، علویوں کی سازشوں اور ممالک مشرقیہ کی پیچیدگیوں نے ان کو فوجی مہم کے اور زیادہ تجربہ کرنے کا موقع نہیں دیا اور اس معاملہ میں ان کی ہمت پست ہو گئی، لیکن انہوں نے عبدالرحمن
|