لکھا، توزون نے بنو حمدان سے صلح کر لی اور بغداد کو لوٹ گیا۔ خلیفہ مع بنو حمدان رقہ میں مقیم رہا۔
انہی ایام میں معزالدولہ احمد بن بویہ نے جو اہواز پر قابض و متصرف تھا، واسط پر چڑھائی کی، توزون نے موصل سے واپس ہو کر مقابلہ کیا۔
۱۷ ذیقعدہ ۳۳۲ھ میں روسیوں نے سرحد آذربائیجان کے شہر بروعہ پر حملہ کیا، مرزبان دیلم نے یہ خبر سن کر اس طرف فوج بھیجی، روسیوں نے مسلمانوں کو خوب قتل و غارت کیا، مسلمانوں نے مجتمع ہو کر ان کا مقابلہ کیا، عرصہ دراز تک لڑائی جاری رہی، آخر سخت معرکوں کے بعد روسیوں کو مار مار کر ان کے ملک کی طرف بھگا دیا گیا۔
خلیفہ متقی کی معزولی:
خلیفہ متقی آخر ۳۳۲ھ تک بنی حمدان کے پاس رہا، اس عرصہ میں خلیفہ اور بنی حمدان کے درمیان کچھ کدورت پیدا ہوئی، خلیفہ نے ایک طرف بغداد میں اور دوسری طرف مصر میں اخشید بن محمد بن طفج کے پاس خطوط بھیجے، ۱۵ محرم ۳۳۳ھ کو اخشید بمقام رقہ خود خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مصر میں تشریف لے چلیں اور وہیں قیام کریں ۔
وزیر نے بھی اس رائے کو پسند کیا اور مصر کے دارالسلطنت بنانے کے منافع بیان کیے، مگر خلیفہ نے اس بات کو پسند نہ کیا، اتنے میں بغداد سے توزون کا خط آگیا جس میں خلیفہ اور اس کے وزیر ابن شیرزاد کو امن دی گئی تھی، خلیفہ نے اس خط کو پڑھ کر خوشی کا اظہار کیا اور اخشید کو چھوڑ کر آخر محرم ۳۳۳ھ کو بغداد کی جانب روانہ ہو گیا۔ توزون نے مقام سندیہ میں استقبال کیا اور اپنے خیمہ میں ٹھہرایا، اگلے دن خلیفہ کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا کر اندھا کر دیا، اس کے بعد ابو القاسم عبداللہ بن خلیفہ مکتفی باللہ کو بلا کر اس کے ہاتھ پر اراکین دولت نے بیعت کی اور مکتفی باللہ کے لقب سے ملقب کیا۔
سب سے آخر میں معزول خلیفہ متقی کو دربار میں پیش کیا گیا، اس نے بھی خلیفہ مستکفی کی بیعت کی متقی کو جزیرہ میں قید کر دیا گیا، پچیس برس اسی مصیبت میں گرفتار رہ کر ۳۵۷ھ میں فوت ہوا، جب قاہر باللہ کو متقی کے اندھا ہونے کی خبر پہنچی تو بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اب ہم دو تو اندھے ہو گئے تیسرے کی کسر ہے، عجیب اتفاق تھا کہ چند ہی روز مستکفی کا بھی یہی چشر ہوا۔
مستکفی باللہ:
ابو القاسم عبداللہ مستکفی باللہ ایک ام ولد موسومہ املح الناس کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ صفر ۳۳۳ھ کو بعمر اکتالیس سال تخت نشین ہوا، ابو القاسم فضل بن مقتدر باللہ بھی دعویدار خلافت تھا، وہ روپوش ہو گیا،
|