زادے، یعنی امیر عبدالعزیز کے پھوپھی زاد بھائی ایوب بن حبیب لخمی کو اندلس کا امیر بنایا، خلیفہ سلیمان نے چونکہ عبدالعزیز کے مجرم یا بے گناہ ہونے کی تحقیق اندلس ہی کے پانچ سرداروں کو سپرد کی دی تھی، لہٰذا خلیفہ کے نزدیک ابھی تک یہ امر مشتبہ تھا کہ عبدالعزیز کا قتل ہو گا یا نہیں اسی لیے اس نے کوئی امیر عبدالعزیز کی جگہ مقرر کر کے روانہ نہیں کیا، بلکہ انہی سرداروں کو اجازت دے دی تھی کہ وہ جس کو مناسب سمجھیں اپنا امیر مقرر کر لیں ، چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا اندلس کے مذکورہ پانچ سردار اگر عبدالعزیز کو مجرم نہ پاتے تو ہرگز قتل نہ کرتے، خلیفہ نے عبدالعزیز کے قتل میں جس حزم و احتیاط سے کام لیا اس سے زیادہ احتیاط ممکن نہ تھی، ان معزز سرداروں کی تعداد بھی اس قدر کافی تھی کہ ان سب کے متفقہ طور پر غلطی کرنے کا امکان نہ تھا، ان سے زیادہ اور کوئی ذریعۂ تحقیق بھی نہیں ہو سکتا تھا، یہ سردار کس قدر بے نفس اور منصف مزاج تھے اس کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ انہوں نے عبدالعزیز کو قتل کرنے کے بعد اسی کے خاندان کا ایک شخص امارت اندلس کے لیے منتخب کیا جو عبدالعزیز کا نہ صرف پھوپھی زاد بھائی تھا، بلکہ وہ رشتہ میں اس کا چچا زاد بھائی بھی تھا، یعنی ایوب بن حبیب کا باپ موسیٰ بن نصیر کا چچا زاد بھائی تھا، اگر یہ لوگ کسی ذاتی عداوت کی بنا پر عبدالعزیز کو قتل کرتے تو اسی کے خاندان میں حکومت اندلس کو باقی نہ رہنے دیتے، اس واقعہ کو یورپی مؤرخین نے کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے جس سے خلیفہ سلیمان کی انتہائی ناانصافی اور ظلم کا تصور ہوتا ہے، وہ عبدالعزیز بن موسیٰ کی تعریف و توصیف میں خوب مبالغہ کرتے ہیں جس کو پڑھ کر مسلمان بہت خوش ہوتے ہیں ، پھر جب اس کے مظلوم و بے گناہ مقتول ہونے کا حال پڑھتے ہیں تو خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی نفرت سے قلب لبریز ہو جاتا ہے اور یہی عیسائی مورخوں کا منشا ہوتا ہے۔ عبدالعزیز بن موسیٰ ۹۸ھ میں مقتول ہوا۔
ایوب بن حبیب:
خلیفہ کے حکم کی تعمیل کرنے والے پانچوں سرداروں نے عبدالعزیز کے قتل سے فارغ ہو کر تمام فوجی و ملکی سرداروں کو جمع کر کے ایک مجلس انتخاب منعقد کی اور ایوب بن حبیب کا نام پیش کر کے سب سے منظوری حاصل کی، چنانچہ ایوب بن حبیب اس شرط کے ساتھ امیر تسلیم کیا گیا کہ محمد بن یزید حکمران قیروان اور خلیفۃ المسلمین سے منظوری حاصل کی جائے گی، اگر اس انتخاب کو خلیفہ یا وائسرائے نے منظور نہ کیا تو پھر امیر وہ ہو گا جس کو خلیفہ یا وائسرائے مقرر کریں گے۔
|