غالب و ہذیل بن ہاشم کو حاکم قسطلہ کی سرکوبی پر مامور فرمایا۔ دونوں فوجیں برشلونہ و قسطلہ کی جانب روانہ ہوئیں اور دونوں جگہ عیسائیوں کو سخت نقصان اٹھا کر اقرار اطاعت پر مجبور ہونا پڑا۔
خلیفہ حکم کی حکومت کے ابتدائی زمانے میں جب عیسائیوں کو پیہم ناکامیاں ہوئیں تو ان کی ہمتیں پست ہو گئیں اور ان کو یقین ہو گیا کہ خلیفہ حکم ثانی اپنے باپ سے کسی طرح عزم و قوت میں کم نہیں ہے۔ ۳۵۴ھ میں ایک مرتبہ پھر سرحدی عیسائیوں میں کشمکش اور سرکشی کے حالات نمایاں ہوئے۔ مگر یعلیٰ بن محمد اور قاسم بن مطرف نے سب کو سیدھا کر دیا۔ اسی سال نارمن لوگوں نے جزیرہ نمائے اندلس کے مغربی ساحل پر حملہ کر کے شہر بشونہ (لبسن) کے نواح تاخت و تاراج شروع کی۔ خلیفہ کو جب اس کا حال معلوم ہوا تو اس نے اپنے امیر البحر عبدالرحمن بن رباحس کو حکم دیا کہ ان قزاقوں کو بھاگنے نہ دے اور خود فوج لے کر قرطبہ سے لبسن کی جانب روانہ ہوا۔ مگر خلیفہ اور امیر البحر عبدالرحمن کے پہنچنے سے پہلے ہی ان قزاقوں کو خشکی اور سمندر سے وہاں کے باشندوں نے مقابلہ کر کے بھگا دیا تھا۔ نہ خشکی میں کوئی شخص نظر آیا نہ ان کا کوئی جہاز ساحل پر موجود پایا گیا۔
عیسائی بادشاہوں کی مرعوبیت:
شانجہ کا چچا زاد بھائی اردونی جو فرڈی نند حاکم قسطلہ کا داماد بھی تھا ریاست لیون کا فرماں روا تھا۔ جب شانجہ کو خلیفہ عبدالرحمن ثالث کی فوجوں نے لیون کا حاکم بنا دیا تو اردونی اپنے خسر فرڈی نند کے پاس چلا گیا تھا اب اردونی نے جلیقیہ سے اپنے بیس ہمراہیوں کے ساتھ خلیفہ حکم کی خدمت میں حاضر ہونے اور فریاد کرنے کا قصد کیا۔ چنانچہ ۳۵۵ھ میں اردونی شاہ لیون شہر سالم میں مع اپنے ہمراہیوں کے پہنچا تو امیر غالب محافظ حدود شمالی نے اس کو روکا اور کہا کہ تم ممالک محروسہ اسلامیہ میں بلا اطلاع و اجازت کیسے داخل ہوئے۔ اردونی سابق بادشاہ لیون نے کہا کہ میں امیرالمومنین کا ایک ادنیٰ غلام ہوں ۔ میں اپنے آقا کے پاس جاتا ہوں میں نے کسی اجازت اور اطلاع کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ تاہم غالب نے اس کو وہیں شہر سالم میں روک کر دربار خلافت کو اطلاع دی۔ یہاں سے اردونی کے آنے کی اجازت مرحمت ہوئی اور ساتھ ہی اس کے استقبال کے لیے ایک سردار کو روانہ کر دیا گیا۔
جب اردونی شہر قرطبہ کے قریب گیا اور شہر میں داخل ہونے کے بعد وہ خلیفہ عبدالرحمن ثالث کی قبر کے سامنے پہنچا تو خود بخود فوراً گھوڑے سے اتر کر قریب پہنچا اور دیر تک دعا کرتا رہا اور قبر کو سجدہ کر کے آگے روانہ ہوا۔ خلیفہ حکم نے اردونی کو اجازت دی کہ وہ سفید لباس پہن کر جو بنو امیہ میں عزت کا لباس سمجھا جاتا تھا داخل دربار ہو۔ شہر طلیطلہ کا اسقف عبداللہ بن قاسم اور قرطبہ کے عیسائیوں کا مجسٹریٹ ولید
|