پر قابض و آباد رہے اور بخوشی اطاعت قبول کی ان کو اور ان کے مال اموال کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ عیسائیوں کے معبدوں اور گرجوں کو (بجزایا صوفیہ کے) علیٰ حالہ قائم اور عیسائیوں کے تصرف میں رکھا۔ قسطنطنیہ کے بشپ اعظم کو سلطان محمد خان ثانی نے اپنی خدمت میں بلا کر خوش خبری سنائی کہ آپ بدستور یونانی چرچ کے پیشواء رہیں گے۔ آپ کے مذہبی اختیارات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سلطان محمد خان ثانی فاتح نے خود یونانی چرچ کی سرپرستی قبول کی اور بشپ اعظم اور پادریوں کو وہ اختیارات حاصل ہو گئے جو عیسائی سلطنت میں بھی ان کو میسر نہ تھے، عیسائیوں کو کامل مذہبی آزادی عطا کی گئی گرجوں کے مصارف اور چرچ کے اخراجات پورا کرنے کے لیے بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں ۔ جنگی اسیروں کو جو فتح مند فوج نے گرفتار کیے تھے سلطان محمد خان ثانی فاتح نے خود اپنے سپاہیوں سے خرید کر آزاد کیا اور ان کو شہر قسطنطنیہ کے ایک خاص محلہ میں آباد کیا۔ اس فتح کے بعد سلطان فاتح نے دیکھا کہ قسطنطنیہ کے اکثر گھر ویران اور غیر آباد ہو گئے ہیں ۔ شہر کی رونق کو واپس لانے اور اس کی آبادی کو بڑھانے کے لیے سلطان فاتح نے ایشیائے کوچک سے پانچ ہزار مسلمان خاندانوں کو قسطنطنیہ میں لا کر آباد کرنے کا انتظام کیا ماہ رمضان ۸۵۷ھ تک یہ پانچ ہزار مسلم خاندان قسطنطنیہ میں آکر آباد ہو گئے اور قسطنطنیہ پہلے سے زیادہ پر رونق شہر بن گیا۔
شہر قسطنطنیہ کی تاریخ:
قسطنطنیہ کی یہ فتح دنیا کا نہایت ہی اہم اور عظیم الشان واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی فتح قسطنطنیہ پر یورپی مورخین کی اصطلاح میں مڈل ایجیز یعنی زمانہ وسطی ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد روشنی کا زمانہ یعنی دور جدید شروع ہوتا ہے۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ کے مختصر تاریخی حالات بیان کر دیئے جائیں ۔ جس موقع پر قسطنطنیہ آباد ہے۔ اسی موقع پر سنہ عیسوی سے ۶۶۷ سال پہلے بائی زنیتم نامی ایک شہر کسی خانہ بدوش قبیلے نے آباد کیا تھا۔ اس شہر پر بہت سے حادثے گزرے اور وہ اپنے ارد گرد کے علاقے کا مرکزی شہر اور ایک مختصر سی ریاست کا دارالصدربن گیا۔ سکندر یونانی کے باپ فیلقوس نے اس شہر پر حملہ کر کے اس کو اپنے قبضہ میں لانا چاہا۔ اس نے رات کی تاریکی میں اپنی فوجوں کو شہر بائی زنیتم تک پہنچانا اور شہر پر اچانک قبضہ کرنا چاہا۔ اسی رات کی تاریکی میں جب کہ فیلقوس کی فوج شہر کی فصیل تک پہنچ گئی تھی شمال کی جانب سے ایک روشنی نمودار ہوئی اور اس روشنی میں شہر والوں نے حملہ آور فوج کو دیکھ لیا اور فوراً مقابلہ کی تیاری اور مدافعت پر آمادہ ہو گئے۔ فیلقوس شہر والوں کو مستعد دیکھ کر واپس ہو گیا اور شہر اس طرح بچ گیا۔ شہر والوں نے اس آئی بلا کے ٹل جانے کو ڈائینا دیبی کا کمال و تصرف تصور کیا اور اس
|