Maktaba Wahhabi

169 - 868
بہرحال باپا کی بہادری کا مبالغہ آمیز تذکرہ کرتے ہوئے یہ سفید جھوٹ جس کی کوئی بھی اصلیت نہیں ہے، تراشا گیا ہے۔ یہ اسی قسم کا تمسخر انگیز جھوٹ ہے جیسا کہ بکرماجیت کی نسبت ہندو مؤرخوں نے بلا کسی شرم و لحاظ کے لکھ دیا ہے کہ اس نے ہندوستان سے ملک اٹلی کے شہر روما میں پہنچ کر جولیس سیرز شہنشاہ روم کو شکست دی تھی یہ شاید انہوں نے اپنے زعم میں اسکندر یونانی کے حملۂ ہند کا جواب دے دیا ہے۔ دل خوش کرنے کے لیے اس قسم کی باتیں گاؤں کی چوپال میں بیٹھ کر تو شاید تھوڑی دیر کے لیے لطف صحبت کا موجب ہو سکتی ہوں لیکن اس کا نام تاریخ اور واقعہ نگاری ہرگز نہیں ہے۔ اخلاق و عادات: خلیفہ مامون الرشید تمام خاندان بنو عباس میں باعتبار، حزم و عزم، حلم و علم، عقل و شجاعت سب سے بڑھ کر تھا۔ وہ خود کہا کرتا تھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو عمرو بن العاص کی اور عبدالملک کو حجاج کی ضرورت تھی مگر مجھ کو کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر شیعیت غالب تھی یعنی علویوں کو بہت قابل تکریم اور مستحق خلافت سمجھتا تھا۔ اسی لیے اس نے اپنے بھائی موتمن کو معزول کر کے علی رضا کو ولی عہد بنایا اور اپنی بیٹی کی شادی کی، اس کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ خود خلع خلافت کر کے علی رضا کو اپنے سامنے خلیفہ بنا دے۔ مگر ابتدائی دس برس گزر جانے کے بعد آخر عہد خلافت میں علویوں کے خروج اور سرکشیوں سے تنگ آکر اس کے خیالات میں تغیر آگیا تھا۔ اس نے یہ بھی حکم جاری کرنا چاہا تھا کہ کوئی شخص سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھلائی کے ساتھ یاد نہ کرے ورنہ مجرم قرار دیا جائے گا، مگر پھر اس حکم کو لوگوں کے سمجھانے سے جاری نہیں کیا۔ قرآن شریف کے پڑھنے کا بھی اس کو بہت شوق تھا۔ بعض رمضانوں میں اس نے روزانہ قرآن شریف ختم کیا ہے۔ مامون نے جب علی رضا کو ولی عہد بنایا تو بعض بنو عباس نے اس سے کہا کہ آپ امر خلافت علویوں کے سپرد نہ کریں ۔ مامون نے جواب دیا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں بنو عباس کو اکثر صوبوں کی حکومت پر مامور فرمایا تھا، میں اس کا عوض کرنا چاہتا ہوں اور ان کی اولاد کو حکومت و خلافت سپرد کرتا ہوں ۔ مامون نے دارالمناظرہ میں جب ہر عقیدہ اور ہر مذہب کے لوگوں کو آزادانہ گفتگو کرنے کا موقع دیا اور علمی بحثیں آزادی کے ساتھ ہونے لگیں تو اس کی توجہ متکلمین اور معتزلہ کی طرف زیادہ مبذول ہو گئی۔ انہیں آزادانہ مذہبی بحث مباحثوں کا یہ نتیجہ ہوا کہ خلق قرآن کا مسئلہ جو درحقیقت بالکل غیر ضروری اور نا قابل توجہ مسئلہ تھا، زیر بحث آیا، اور مامون خلق قرآن کا قائل ہو کر ان لوگوں پر جو خلق قرآن کے قائل نہ تھے تشدد کرنے لگا، اس تشدد و سختی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مخالف عقیدہ کے علماء نے اور بھی زیادہ سختی سے مخالفت
Flag Counter