شروع کی اور طرفین کی اس مخالفت و عصبیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مامون کے بعد تک بھی علماء دین کو اس بے حقیقت اور غیر ضروری مسئلہ کی وجہ سے بڑی بڑی اذیتیں برداشت کرنی پڑیں ۔
ابو محمد یزیدی کا بیان ہے کہ میں مامون کو بچپن میں پڑھایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ خدام نے مجھ سے شکایت کی کہ جب تم چلے جاتے ہو تو یہ نوکروں کو مارتا پیٹتا اور شوخی کرتا ہے، میں نے اس کے سات قمچیاں ماریں ، مامون روتا اور آنسو پوچھتا جاتا تھا۔ اتنے میں وزیر اعظم جعفر برمکی آگیا میں اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اور جعفر مامون سے بات چیت کر کے اور اس کو ہنسا کر چلا گیا۔ میں پھر مامون کے پاس آیا اور کہا کہ میں تو اتنی دیر ڈرتا ہی رہا کہ کہیں تم جعفر سے شکایت نہ کر دو۔ مامون نے کہا کہ جعفر تو کیا میں اپنے باپ سے بھی آپ کی شکایت نہیں کر سکتا، کیونکہ آپ نے تو میرے ہی فائدے کے لیے مجھ کو مارا تھا۔
یحییٰ بن اکثم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مامون الرشید کے کمرہ میں سو رہا تھا۔ مامون بھی قریب ہی مصروف خواب تھا۔ مامون نے مجھ کو جگا کر کہا کہ دیکھنا میرے پاؤں کے قریب کوئی چیز ہے۔ میں نے دیکھ کر کہا کہ کچھ نہیں ہے، لیکن مامون کو اطمینان نہ ہوا، اس نے فراشوں کو آواز دی۔ انہوں نے شمع جلا کر روشنی سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کے بچھونے کے نیچے ایک سانپ بیٹھا ہے۔ میں نے مامون سے کہا کہ آپ کے کمالوں کے ساتھ آپ کو عالم الغیب بھی کہنا چاہیے۔ مامون نے کہا معاذ اللہ یہ آپ کیا کہتے ہیں ۔ بات صرف یہ تھی کہ میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے کہ اپنے آپ کو ننگی تلوار سے بچاؤ۔ میری فوراً آنکھ کھل گئی اور میں نے سوچا کہ کوئی حادثہ قریب ہی ہونے والا ہے، سب سے قریب بچھونا ہی تھا، لہٰذا میں نے بچھونے کو دیکھا اور سانپ نکلا۔
محمد بن منصور کا قول ہے کہ مامون کہا کرتا تھا کہ شریف آدمی کی ایک یہ علامت ہے کہ اپنے آپ سے برتر کے مظالم سہے اور اپنے آپ سے کمتر پر ظلم نہ کرے۔
سعید بن مسلم کہتے ہیں کہ مامون نے ایک مرتبہ کہا کہ اگر مجرموں کو یہ معلوم ہو جائے کہ میں عفو کو کس قدر دوست رکھتا ہوں تو ان سے خوف دور ہو جائے اور ان کے دل خوش ہو جائیں ۔
ایک مجرم سے مامون نے کہا کہ واللہ میں تجھ کو قتل کر ڈالوں گا۔ اس نے کہا کہ آپ ذرا تحمل کو کام میں لائیں ، نرمی کرنا بھی نصف عفو ہے۔ مامون نے کہا اب تو میں قسم کھا چکا۔ اس نے کہا کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے قسم توڑنے والے کی حیثیت سے پیش ہوں ۔ تو اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ایک خونی کی حیثیت سے پیش ہوں یہ سن کر مامون نے اس کا قصور معاف کر دیا۔
عبدالسلام بن صلاح کہتے ہیں کہ ایک روز میں مامون کے کمرے میں سویا، چراغ گل ہونے لگا،
|