فرانسیسی اس سے بہت خوف کھاتے تھے۔ اس نے وہاں بعض مقامات کا محاصرہ کر رکھا تھا کہ اسی حالت میں آخر ماہ ذی الحجہ ۲۸۹ھ میں فوت ہوا۔ اس کی لاش پلرمو میں لا کر دفن کی گئی۔
اسی ابراہیم کے عہد حکومت میں ابوعبداللہ حسین بن محمد شیعی نے مراکش و افرایقہ کی درمیانی حد پر کوہ اطلس کے جنوب شہر کتامہ میں ظاہر ہو کر بربری قبائل کو محبت اہل بیت کی ترغیب و تلقین شروع کر کے بہت جلد کافی طاقت حاصل کر لی۔ اور کتامہ پر قابض ہو کر حدود سلطنت اغلبیہ کو دبانا شروع کیا تھا کہ سلطان ابراہیم اغلبی فوت ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ابوالعباس عبداللہ بن ابراہیم تخت نشین ہوا۔
ابوالعباس:
ابوالعباس نے تخت نشین ہو کر تونس کو اپنا دارالحکومت بنایا اور اپنے بیٹے ابوخول کو فوج دے کر ابوعبداللہ شیعی کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ ابو خول نے مقام تاوزرت میں ابوعبداللہ شیعی کو شکست فاش دے کر بھگا دیا اور تاوزرت میں ابوعبداللہ شیعی کے معتقدین کا قتل عام کیا۔ شیعی نے پھر فوج جمع کر کے ابو خول پر حملہ کیا۔ ایک شبانہ روز کی جنگ عظیم کے بعد ابوخول کو شکست ہوئی وہ تونس واپس آیا۔ یہاں سے پھر فوج مرتب کر کے ابوعبداللہ شیعی کے مقابلے کو روانہ ہوا۔ ابوعبداللہ شیعی نے دھوکا دے کر اس کی فوج پر حملہ کیا۔ اس غیر مترقبہ حملہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابوخول کی فوج شکست کھا کر بھاگی اور ابوخول نے مقام سطیف میں قیام کر کے پھر لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا اور مستعد ہو کر ابوعبداللہ شیعی کے مقابلے کو روانہ ہوا۔ ادھر ابوخول کے دوسرے بھائی زیادۃ اللہ بن ابوالعباس نے اپنے باپ کے بعض خدام کو شریک سازش کر کے ابوالعباس کا کام تمام کرا دیا اور خود شعبان ۲۹۰ھ میں تخت نشین ہوا یہ خبر جب ابوخول کو پہنچی تو وہ تونس کی طرف واپس آیا اور آتے ہی گرفتار ہو کر قتل ہوا علاوہ اس کے اور بھی اپنے بھائیوں اور چچاؤں کو زیادۃ اللہ نے قتل کرایا۔ زیادۃ اللہ کی کنیت ابومضر تھی۔
ابومضر زیادۃ اللہ:
ابومضر زیادۃ اللہ کی تخت نشینی کے بعد ابوعبداللہ شیعی نے بڑھ کر شہر سطیف پر قبضہ کر لیا اور اس کی طاقت میں خوب اضافہ ہو گیا۔ ابومضر عیش پرست اور پست ہمت شخص تھا۔ اس نے تونس کو چھوڑ کر مقام رقادہ میں سکونت اختیار کی اور اپنے ایک سردار ابراہیم بن حبیش کو ابوعبداللہ شیعی کے مقابلہ پر روانہ کیا۔ ابراہیم بن حبیش چالیس ہزار فوج لے کر روانہ ہوا۔ اور مقام قسطیلہ میں پہنچ کر چھ مہینے مقیم رہا اور اس عرصہ میں فوجیں ہر طرف سے فراہم کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک لاکھ فوج اس کے پاس فراہم ہو گئی۔ اس لشکر عظیم کو لے کر وہ کتامہ کی طرف بڑھا۔ مقابلہ ہوا۔ اتفاق کی بات ابراہیم بن حبیش کو شکست ہوئی اور
|