دیوان النظرفی المظالم:
یہ محکمہ مشرف اعلیٰ کے ماتحت ہوتا تھا، اس محکمہ کا کام شاہی اہل کاروں کے کام کا جانچنا، دفتروں اور رجسٹروں کی غلطیاں نکالنا، دفاتر کا معائنہ کرنا اور بے راہ روی سے اہل کاروں اور افسروں کو روکنا تھا۔
دیوان الانہار:
اس محکمے کا کام نہروں کی مرمت و نگرانی کرنا اور آب پاشی کے وسائل بڑھانا تھا، یعنی نہریں نکالنے میں کاشت کاروں کے سوا امراء اور اہل خیر کو آزادی حاصل تھی، کاشت کار یا کسی علاقے کے باشندے اگر کوئی جدید نہر نکالنا چاہتے تھے تو اس نہر کے نکالنے کا نصف خرچ سرکاری خزانہ سے ملتا تھا، اگر پانی کی تقسیم میں ایک گاؤں والوں کا دوسرے گاؤں والوں سے کوئی جھگڑایا فساد ہو جاتا تھا تو اس محکمہ کے اہل کار دخل دے کر اس کا فیصلہ کر دیتے تھے، ورنہ عام طور پر گورنمنٹ کوئی دخل نہ دیتی تھی، کاشت کار آپس ہی میں سب باتیں طے کر لیتے تھے۔
جدید نہروں کے نکالنے سے حکومت کو صرف یہ فائدہ ہوتا تھا کہ محاصل کی وصولی میں آسانی ہوجاتی تھی اور کاشت کار مال دار و خوشحال ہو کر محاصل کی ادائیگی میں تامل نہ کرتے تھے۔
دیوان الرسائل:
اس محکمے کے اہل کاروں کا کام عہد ناموں کے مسودے تیار کرنا، شاہی فرامین کے مضامین لکھ کر مہر ثبت کرانا اور لفافوں میں بند کر کے مہر لگانا، اہم فیصلوں کی نقلیں رکھنا اور کسی منشور کی نقلیں کر کے صوبوں اور شہر میں بھجوانا، عام لوگوں کی درخواستیں لے کر جس محکمے سے اس کا تعلق ہو اس محکمے میں بھیجوا دینا اور دفاتر کے لیے مناسب فارم تجویز کرنا تھا۔
دارالعدل:
اس میں ہر ایک عدالت کے فیصلے پر اپیل ہو سکتی تھی، دارالعدل میں قاضی بغداد یعنی قاضی القضاۃ، وزراء، شہر کے فقہاء و علماء سب جمع ہو کر اہم مقدمات کی سماعت کرتے تھے، دارالعدل میں خلیفہ بھی بطور صدر شریک ہوتا تھا اور اگر خود خلیفہ کی ذات کو اس معاملے سے کوئی تعلق ہو تو وزیراعظم یا قاضی القضاۃ کو صدارت کا منصب دیا جاتا تھا، صوبہ داروں پر بغاوت کا الزام لگایا جاتا یا سپہ سالاروں کو سازش سے متہم کیا جاتا تو انہیں اسی عدالت میں پیش ہو کر اپنی صفائی اور براء ت پیش کرنے کا موقع دیا جاتا تھا، اس عدالت میں وہی شخص بطور گواہ پیش ہو سکتا تھا جو اپنے نیک چلن ہونے کی تحریری سند جس پر قاضی اور محتسب کے دستخط ہوں پیش کر سکتا تھا، بڑے بڑے عالی رتبہ اشخاص اس عدالت میں گواہی دیتے
|