Maktaba Wahhabi

387 - 868
کے موافق امیر سمح نے فوج لے کر جبل البرتات کی طرف توجہ کی، اس پہاڑ کی گھاٹیوں کو طے کر کے وہ اس ملک میں داخل ہوا، جو آج کل جنوبی فرانس کہلاتا ہے، فرانس کے اس جنوبی حصہ میں دو زبردست حکومتیں قائم تھیں ، ایک سلطنت یا ریاست وہ تھی جو اندلس کے گاتھ لوگوں نے فرار ہو کر یہاں آکر قائم کر لی تھی، اس ریاست کا دارالحکومت شہر ناربون تھا اور چونکہ تمام ملک اندلس کے خزائن جس قدر گاتھ لوگ لا سکتے تھے، یہیں لے آئے تھے اور تمام وہ لوگ بھی یہیں آکر جمع ہو گئے تھے جو مسلمانوں کے دشمن تھے۔ لہٰذا یہ حکومت خوب طاقتور اور اپنے محل وقوع کے اعتبار سے ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھی، دوسری زبردست سلطنت قوم گال کی تھی، جس کا دارالسلطنت طولوز تھا، امیر سمح نے جبل البرتات سے گزر کر ناربون پر حملہ کر کے اس شہر کو فتح کر لیا اور تمام ریاست مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی، اسلامی لشکر کو یہاں سے بہت کچھ مال غنیمت ہاتھ آیا، ناربون سے آگے بڑھ کر طولوز پر حملہ کیا گیا، بڑی خوں ریز جنگ ہوئی، آخر اس شہر کا محاصرہ مسلمانوں نے کر لیا، مسلمانوں کی فوج بہت تھوڑی تھی اور عیسائیوں کا لشکر ہر ایک آئندہ لڑائی میں زیادہ ہی برسر مقابلہ آتا تھا، شہر طولوز فتح ہی ہونے والا تھا کہ ایک فرمان روا ڈیوک آف ایکیوٹین ایک عظیم الشان فوج لے کر پہنچ گیا، امیر سمح کے ساتھ جس قدر فوج آئی تھی اس کا ایک حصہ ان کو ناربون وغیرہ مفتوحہ علاقہ میں چھوڑنا پڑا تھا، اس لیے ان کے ہمراہ بہت تھوڑے آدمی تھے، صحیح تعداد تو اسلامی لشکر کی نہیں بتائی جا سکتی، مگر یہ بات یقینی ہے کہ جب فرانسیسیوں کا لشکر عظیم میدان میں آکر صف آرا ہوا تو امیر سمح نے بجائے اس کہ وہ حواس باختہ ہو جاتے اپنی صفوں کو درست کر کے ایک ہمت بڑھانے اور جوش دلانے والی تقریر کی، ادھر پادریوں نے فرانسیسی لشکر کو قتال پر آمادہ کرنے والی تقریریں سنائیں ، لڑائی شروع ہوئی اور طارق و لرزیق کی لڑائی کا نقشہ ایک مرتبہ پھر جنوبی فرانس میں نمودار ہوا، کئی گھنٹے تک تیر و شمشیر اور برچھیوں کی بجلیاں چمکتی رہیں ، قریب تھا کہ فرانسیسیوں کا لشکر عظیم ان مٹھی بھر مسلمانوں کے مقابلے میں لاشوں کے ڈھیر چھوڑ کر، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور تمام ملک فرانس اسلامی لشکر کے پاؤں سے روندا جائے۔ امیر سمح کی شہادت : عین اس وقت جب کہ مسلمان عیسائیوں کو پیچھے دھکیل کر آگے بڑھ رہے تھے، ایک تیر امیر سمح کے گلے میں آکر ترازو ہو گیا، اپنے امیر کو اس طرح جام شہادت نوش کرتے ہوئے دیکھ کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے اور جوش شمشیر زنی سرد پڑ گیا، مگر پھر بھی وہ اس طرح حواس باختہ نہیں ہوئے جیسی کہ ایسے نازک موقع پر توقع ہو سکتی تھی، مسلمانوں کی پیش قدمی رک گئی، عیسائی یک لخت چیرہ دست ہو گئے،
Flag Counter