کرتے ہیں کہ دیکھنا اور سننا تو بڑی بات ہے۔ خواب اور خیال کو بھی یہاں مجال دخل نہ تھی۔
اس قصر کا ایک حصہ قصر الخلفاء بھی قابل دید تھا۔ اس کی چھت خالص سونے اور ایسے شفاف سنگ مر مر سے بنی ہوئی تھی کہ دوسری طرف کی چیز مثل آئینہ کے نظر آتی تھی۔ یہ چھت باہر کی جانب سونے چاندی کے سفالوں سے سجی ہوئی تھی۔ اس کے وسط میں ایک خوبصورت مرصع فوارہ نصب تھا۔ جس کے سر پر وہ مشہور موتی جڑا ہوا تھا جس کو شہنشاہ یونان نے بطور تحفہ عبدالرحمن ثالث کی خدمت میں بھیجا تھا۔ اس فوارہ کے علاوہ قصر کے بیچ میں ایک فوارہ نما طشت پارہ سے لبریز رکھا تھا۔ اس قصر کے گرد نہایت خوش نما آئینے ہاتھی دانت کے چوکٹوں میں جڑے ہوئے تھے مختلف اقسام کی لکڑیوں کے مرصع دروازے سنگ مر مر اور بلوری چوکٹوں پر نصب تھے۔ جس وقت یہ دروازے کھول دیئے جاتے اور آفتاب کی شعاع سے مکان روشن و منور ہوتا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ اس کی چھت اور دیواروں کی طرف نظر بھر کے دیکھ سکے۔ اس حالت میں اگر پارہ ہلا دیا جاتا تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ تمام مکان جنبش میں ہے جو لوگ اس راز سے واقف نہ تھے وہ مکان کو فی الحقیقت جنبش میں سمجھ کر بے حد خائف ہوتے۔
اس قصر کے انتظام اور نگرانی کے لیے تیرہ ہزار سات سو پچاس ملازم اور تیرہ ہزار تین سو بیاسی غلام جو نصاریٰ قوم کے تھے متعین تھے۔ حرم سرا کے اندر چھ ہزار عورتیں خدمت گذاری کے لیے حاضر رہا کرتی تھیں ۔ حوضوں میں روزانہ بارہ ہزار روٹیاں علاوہ اور چیزوں کے مچھلیوں کی خوراک کے لیے ڈالی جاتی تھیں ۔ مدینۃ الزہرا وہ نادر الوجود قصر تھا جس کی وسیع سنگ مر مر کی عمارات، دربار خاص و عام کی شان و شوکت، اس کے باغات کا پر فضا سماں جہاں ہزار ہا فوارے اچھلتے، نہریں اور حوض پانی سے چھلکتے تھے۔ دیکھنے کے لیے دور دور سے سیاح آتے تھے۔ عربوں نے اس قصر کو اپنی صنعت و حرفت و دستکاری کی نمائش گاہ بنا دیا تھا۔ افسوس کہ عیسائی وحشیوں نے آئندہ زمانے میں جب قرطبہ پر قبضہ کیا تو قصر الزہرا کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ مسجدوں کو ڈھایا۔ مقبروں کو مسمار کر کے قبروں تک کو ادھیڑ ڈالا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
پاک باطنی:
قاضی القضاۃ منذر بن سعید بلوطی کا ذکر اوپر آ چکا ہے ان کا ایک واقعہ جو عبدالرحمن ناصر کے ساتھ ہوا ذکر کرنے کے قابل ہے۔ وہ یہ کہ عبدالرحمن نے قرطبہ میں ایک مکان کو اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے خریدنا چاہا۔ وہ مکان یتیم بچوں کی ملکیت تھی اور وہ یتیم بچے قاضی منذر کی نگرانی میں تھے۔ جب قاضی کے پاس اس مکان کی خریداری کا پیغام پہنچا تو قاضی صاحب نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا اور خلیفہ
|